سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

پاکستا نی فرد کی حقیقی آزادی میں رکاوٹ کون؟

ہر قوم حقیقی آزادی کی تلاش میں ہے۔
ہر قوم نے حقیقی آزادی کے لیے حقیقی جدو جہد کی ہے۔
پاکستانی قوم نے بھی حقیقی آزادی کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہے اور مسلسل دے رہی ہے۔ پھر بھی ہم حقیقی آزادی سے دور کیوں ہیں۔ ہمیں وہ سہولتیں کیوں میسر نہیں ہیں۔ جو حقیقی آزادی حاصل کرنے والی قوموں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس شُمارے میں ہمارے زیادہ تر مضمون نگار انہی اسباب کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ تلاش بہت سنجیدگی سے کی جارہی ہے۔ صرف نعرے بازی نہیں ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا۔ وہاں بھی اگرچہ فرد کو مکمل آزادی نہیں ہے۔ مودی دَور میں خاص طور پر ہندو مت کے علاوہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو جن مصائب اور سفاکیوں کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جیسے ظلم کے وار جاری رہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں سچی آزادی کا دور دورہ ہے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے بہت سے ممالک بالخصوص یورپ کے ملکوں میں فرد کو حقیقی آزادی میسر ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولتیں یقینی ہیں۔ مزید سہولتوں کے لیے کوششیں جاری رہتی ہیں۔ یہاں سسٹم قائم ہوچکا ہے۔ کوئی بھی سسٹم سے باہر نہیں ہے۔ اور نہ کوئی قانون سے بالاتر ہے۔ حقیقی آزادی کے یہی ثمرات ہوتے ہیں۔ ایک فرد ایک خاندان اپنے گھر میں محفوظ ہیں۔ سڑک پر محفوظ ہو۔ اپنے دفتر میں کارخانے میں محفوظ ہو۔ دن رات میں کسی وقت بھی کہیں بھی جاسکتا ہو۔ نقل و حرکت کی آزادی بھی ہو۔ اور ریاست کی طرف سے اسے فاصلوں کے تناظر میں اچھی آرام دہ محفوظ ٹرانسپورٹ بھی میسر ہو۔ پکی سڑکوں پر تمام سہولتوں والی جدید بسیں۔ اندرون شہر زیر زمین وقت پر چلنے والی ٹرینیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر بڑی تعداد میں ہم وطنوں کو لے جانی والی ٹرینیں۔ ہر شہر کو اندر مختلف علاقوں کو آپس میں ملانے والی اچھی پختہ سڑکیں۔ اور ان پر وقت پر چلنے والی بسیں۔
حقیقی آزادی کا مطلب بنیادی طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ بہت سوچ بچار کے بعد جو آئین بنائے گئے ہیں ۔ قوانین وضع کیے گئے ہوں۔ ان پر سختی سے عملدرآمد ہو۔ غریب امیر۔ با اثر۔ بے اثر سب کے لیے قانون کا نفاذ یکساں ہو۔ سرکاری افسر۔ عوام کی خدمت کے لیے مامور ہوں نہ کہ عوام پر جبر اور استبداد کرنے کے لےے۔ نہ ہی وہ مافیاﺅں کے۔ جاگیرداروں ۔ سرمایہ داروں۔ فوجی افسروں۔ سول افسروں۔ ٹھیکیداروں اور دوسرے پیسے والوں کے زرخرید ملازموں کی طرح ان کے حکم بجا لائیں۔ اور ملک کے اصل مالک عوام کے ساتھ نا انصافیاں کریں۔ انہیں چین سے زندگی گزارنے نہ دیں۔
ایک ریاست اور اس میں شامل علاقوں کے درمیان۔ وہاں رہنے والی مختلف قومیتوں کے درمیان عمرانی معاہدہ بھی ہوتا ہے کہ اس ریاست کی حدود میں سانس لینے والا۔ اور ایک سیکنڈ پہلے پیدا ہونے والا بچہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ وہ اس کی جان مال کی حفاظت کرے گی۔ اس کے لےے خوراک کی ذمہ دار ہوگی۔ اس کے روزگار کی ضامن۔ بیماری کی صورت میں اس کے اچھے جدید ترین علاج کرے گی۔ اس ریاست کے ہر فرد کی لازمی تعلیم کا مفت اہتمام کرے گی۔
آزادی کے وقت پاکستان دو بازوﺅں پر مشتمل تھا۔ مشرقی پاکستان۔ مغربی پاکستان ۔1971 تک دونوں حصوں میں اور 1971 کے بعد اس چھوٹے پاکستان میں آج تک کوئی ایسا دن طلوع نہں ہوا ۔ کوئی ایسا دور نہیں آیا۔ جب ہر پاکستانی کو یہ ساری سہولتیں ریاست نے حکمرانوں نے فراہم کی ہوں۔ آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ وعدے ہوتے رہے۔ دعوے کیے جاتے رہے۔ مگر ایک دن بھی ایسا سسٹم نہیں بن سکا۔ جن میں یہ ساری سہولتیں از خود میسر ہوئی ہوں۔
اب تو پاکستانیوں نے یہ سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ وہ حقیقی آزادی کے حقدار ہیں۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسی طرح مر مر کر جینا ان کا مقدر ہے۔ غریبی ان کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے۔ ایک طرف حکمران طبقہ ہے۔ جس میں جاگیردار۔ سرمایہ دار۔ ٹھیکیدار ۔ اعلیٰ فوجی سول افسران ہیں۔ بڑے پیر ہیں۔ علمائے دین ہیں۔ دنیا کی ہر آسائش سرکار کی ہر سہولت ان کے لیے وقف ہے۔ عام پاکستانی یہ یقین کرتے ہیں کہ ساری سہولتیں عشرتیں۔ حکمران طبقوں کے لیے ہیں سرکاری خزانہ ان کی اپنی جیب ہے۔ سرکاری دفاتر ان کی چراگاہیں ہیں۔ سرکاری گاڑیاں ان کے گدھے گھوڑے ہیں۔ ان کی زندگی پُر تعیش بنانے کے لیے امیر ملکوں سے قرضے لیے جاتے ہیں جو پاکستانیوں کی اکثریت انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار کر ادا کرتی ہے۔ اب 23 کروڑ میں سے سات کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ پنجاب۔ جنوبی پنجاب۔ سندھ کے پی کے۔ بلوچستان۔ آزاد جموں کشمیر۔ گلگت بلتستان۔ ہر وحدت میں اکثریت کو دو وقت کی روٹی بہت مشکل سے ملتی ہے۔
حقیقی آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اب ہمارے اخراجات میں قرضوں پر سود کی ادائیگی سر فہرست ہے۔ ہمیں اس سال 25ارب ڈالر کی ادائیگی لازمی کرنی ہے۔ اس کے لےے حکمران طبقہ اپنی کسی آسائش کی قربانی نہیں دے رہا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنروں کے لیے کئی ارب کی نئی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔ حکمران طبقوں کو پیٹرول۔ بجلی۔ گیس سب مفت ملتا ہے۔ تنخواہیں بھی بڑی بڑی اس کے علاوہ۔ صدر۔ وزیر اعظم ۔ وفاقی وزرائے اعلیٰ سرکاری افسر غیر ضروری غیر ملکی سفر کرتے رہتے ہیں۔
حقیقی آزادی۔ مستحکم معیشت سے ملتی ہے۔ ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اس کی بھوک۔ بیماری۔ بے روزگاری سے ریاست با خبر ہے۔ اور اس کے لیے سسٹم بھی بنارہی ہے۔
ان تمام معروضات سے ظاہر اور ثابت ہورہا ہے کہ ایک پاکستانی کی حقیقی آزادی کے راستے میں حکمران طبقے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات


اگست2023

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *