سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کتاب میلے۔ ادبی کانفرنسیں۔ قابل قدر

ملک میں سیاسی سناٹا ہے۔ بے یقینی ہے۔ لیکن سردیوں میں علمی ادبی سرگرمیوں میں خاص تیزی آجاتی ہے۔ اکتوبر۔ نومبر۔ دسمبر میں شہر شہرکتاب میلے۔ ادبی کانفرنسیں۔ مشاعرے منعقد ہوتے ہیں۔ قابل قدر ہیں وہ صنعتی ادارے۔ بینک ۔ کارخانے جو اِن مراکز دانش کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں اخلاقی گراوٹ اپنے عروج پر ہے۔ جھوٹ تواتر سے بولاجارہا ہے۔ مخالفین کی گھریلو زندگیاں بے پردہ کی جارہی ہیں۔ صرف چند رویوں یا مفادات کی خاطر معاشرے میں فکری آسودگی پھیلائی جارہی ہے۔ زبان بگڑ رہی ہے۔ پریس کانفرنسوں میں ۔ تقسیم اسناد کی محفلوں میں وزراء بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں گھٹیا تقریریں سننے میں آتی ہیں۔ اخبارات۔ ٹی وی چینل۔ سوشل میڈیا پر کوک شاستر کے اوراق بکھیرے جارہے ہیں۔ بڑے عہدوں پر بہت چھوٹے لوگ بٹھائے جارہے ہےں۔ جو اپنی میٹنگوں میں ۔ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بازاری زبان بولتے ہیں۔
اخلاقی ابتلا کے دَور میں اصغر ندیم سید کا فیصل آباد لٹریری فیسٹیول۔ امینہ سید کا ادب فیسٹیول۔ احمد شاہ کی عالمی اُردوکانفرنس۔ عزیز خالد کاعالمی کتاب میلہ بہت غنیمت ہے۔ ان اعلیٰ معیاری تقریبات میں عالمی مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔یہاں پاکستان کے صف اوّل کے اہل قلم۔ مصور۔ شاعر۔ اساتذہ۔ مصنّفین جمع ہوتے ہیں۔ صرف اُردو میں لکھنے والے نہیں۔ قومی زبانوں پنجابی۔ سرائیکی۔ سندھی۔ پشتو۔ بلوچی۔ براہوئی۔ کشمیری۔ بلتی کے لکھنے والے بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔کسی بھی معاشرے کے لیے باہمی فکری اشتراک ایک علم پرور ماحول کی تخلیق میںبنیادی کرداراداکرتا ہے۔ ماہنامہ ’اطراف‘ تو ہمیشہ سے ان بڑی کانفرنسوں کی روداد اورتصاویر اہتمام سے شائع کرتا رہا ہے۔ بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے شہروں قصبوں میں بھی اب کتاب میلے اور ادبی سیمینار منعقد ہورہے ہیں۔ اس طرح حرف و دانش کا تبادلہ ہوتا ہے۔ خیال کو تقویت ملتی ہے۔
کئی دہائیوں سے ہمارے سیاسی منظر نامے سے افکار اور نظریات کو بے دخل کیا جارہا ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے غیر سیاسی۔ غیر جماعتی۔ اور غیر نظریاتی سیاست ہی نہیں ہر شعبے میں دور جہالت کا آغاز ہوا ہے۔ زندگی میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔ اب سیاست۔ معاشرت۔ تعلیم۔ کاروبار سب شعبوں میں مقتدروں کی خوشنودی سر فہرست ہوگئی ہے۔ صوفیا۔ اولیاءاللہ کی سرزمین۔ شاہ لطیفؒ ۔ خواجہ فریدؒ۔ سلطان باہوؒ۔ بابا فریدؒ۔ بلھے شاہؒ۔ شاہ حسینؒ۔ رحمان باباؒ۔ مست توکلی کی وادیاں دو آبے۔ فکر و نظر سے دور ہورہے ہیں۔ اس لیے ہماری نظر میںبڑے چھوٹے شہروں میں علمی ادبی سرگرمیاں کرنے والے سب لائق احترام ہیں۔
سوشل میڈےا کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ کتابوں کی اشاعت گھٹ رہی ہے۔ ایسے عالم میں یہ کوششیں۔ معاشرے کے اشتراک اور ضمیر کو زندہ اورذہن کو تازہ رکھنے میں تعمیرانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ یہاں کتابوں کی رونمائیاں بھی ہوتی ہیں ۔کتابوں کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں۔ بزرگ۔ نوجوان۔ مصنّف۔ افسانہ نگار۔ شعرا اپنی تازہ تصنیفات کے تبادلے بھی کرتے ہیں۔ مجھے ابھی فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں شرکت کا موقع ملا۔ آرٹس کونسل کا بڑا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بزرگ بھی تھے۔ لیکن زیادہ تعداد طلبہ۔ طالبات اور نوجوانوں کی تھی۔ نوجوانوں کی یہ شرکت ان تقریبات کی اہمیت دو چند کررہی ہے۔ ریاست اور سیاست دونوں زر کے لالچ میں اصل زر یعنی نوجوانوں کو بھول گئے ہیں۔ یہ ادبی میلے نوجوانوں کی پیاس بجھارہے ہیں۔ ان کی مایوسی دور کررہے ہیں۔ یہاں ماضی کے تجزیے ہوتے ہیں۔ حال پر تبصرے۔ اس طرح قوم کا روشن مستقبل نمو پاتا ہے۔ ان سماعت گاہوں میں کئی کئی نسلیں بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کو پڑھتے عمریں گزریں۔ ان کی صرف ایک جھلک ہی دیکھنے کو نہیںملتی۔ بلکہ ان کے ساتھ سیلفی بنوانے کا موقع بھی ملتاہے۔
’جنگ‘ میں میرے اتوار کے کالم میں بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوﺅں دامادوں سے ملنے کا حوالہ تو مجھے ہر شہر میں ملتا ہے۔ یہیں سے یہ طمانیت بھی ہوتی ہے کہ اخبار پڑھنے والے اب بھی موجود ہیں۔ اس طرح مجھ جیسے عشروں سے لکھنے والوں کا بھی خون بڑھتا ہے۔ ان کانفرنسوں کو سنبھالنے والے زیادہ تر کارکن رضاکارانہ شرکت کرتے ہیں جو یقینا قابل تکریم ہے۔
اس بار ’اطراف‘ کے ’کتاب نمبر‘ کا بنیادی موضوع ’ہمارے اسکول۔ کتاب کے محافظ‘ میںبھی ملک بھر سے پرائمری اسکولوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے پر بات ہورہی ہے۔ ہم آئندہ مہینوں میں بھی اسی موضوع پر تحریریں شائع کرتے رہیں گے۔پرائمری ایجوکیشن پر ہماری خصوصی توجہ ہوگی۔
ادبی کانفرنسوں۔ کتاب میلوں۔ مشاعروں کے منتظمین سے ہماری گزارش یہ ہوگی کہ ان کے انعقاد کے بعد بھی آپس میں رابطہ رہنا چاہئے۔ جو ادب دوست کسی وجہ سے ان میں شرکت نہیں کرسکے۔ ان کے لیے تقریبات کی جامع رپورٹ کتابی شکل میں پیش کی جائے۔ اور وڈیوز کو بھی ایڈیٹنگ کے بعد ایک ترتیب سے موضوعات کی درجہ بندی کرکے منظم صورت دی جائے۔
آپ سب قابل احترام ہیں کہ آپ معاشرتی انتشار۔ سماجی ادبار اور اخلاقی گراوٹ کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ معاشرے کو تعفن اور جمود سے بچارہے ہیں۔

دسمبر2023

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *