سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (ساتویں قسط)

شام کے تمام شہر محصور اور گھیراؤ کی حالت میں تھے۔ تمام شہروں میں پانی اور بجلی کی فراہمی جان بوجھ کر بند کردی گئی اور ایک زبردست انسانی المیہ واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے اور بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ دنیا بھر کو مدد کی اپیلیں کی جانے لگی تھیں۔ جو لوگ حکومت سے خوراک کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ان کا استقبال گولیوں سے کیا جاتا۔ صبح کے وقت
میں اپنے ایک دوست سے ملنے بنیاس گئی۔ مجھے امید تھی کہ اس سے مجھے صحیح بات معلوم ہوسکے گی۔ وہ کہیں باہر گیا تھا اور اپنے گھر پر نہیں تھا لیکن اس کی بیوی نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر میں ٓاجائے گا۔ بنیاس میں ایک پرامن مظاہرہ جاری تھا جس میں علوی اور سنی دونوں شریک تھے۔ میرا یہ دوست المیزہ میں ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ خود وکیل تھا لیکن اس کی بیوی سرکاری ملازم تھی۔ وہ میرا ایک بہت پرانا دوست تھا۔ وہ بھی اسی طرح اپنی برادری کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار تھا جیسے
دباؤ کا شکار میں خود تھی۔ وہ خود علوی تھا اور بنیاس کے علوی میری طرح اس کو بھی سازشی تصور کرتے تھے۔ جب میں میزاہ میں داخل ہوئی تو خوف سے میری حالت بری تھی۔ میں جانتی تھی کہ یہاں کے رہنے والے زیادہ تر علوی ہیں۔ یہاں صدر حافظ االسد کے بھائی رفعت کا کنٹرول تھا جس نے ڈیفنس بریگیڈ بنایا تھا۔ اس بریگیڈ نے حامہ اور تذمر میں قتل عام کیا تھا۔ میں نے اپنی سہیلی سے کہا جو کار ڈرائیو کر رہی تھی کہ اگر انہیں پتہ چل جائے کہ میں کون ہوں؟ تو وہ ابھی میری تکا بوٹی کردیں۔ اس نے جواب میں کہا کہ تم ڈرو مت کیونکہ یہاں علویوں کے ساتھ ساتھ کرد بھی رہتے ہیں اور یہ کسی کو معلوم نہیں ہوگا کہ تم کون ہو؟ میں اتنی خوف زدہ تھی کہ
خود کو اندر سے کمزور محسوس کررہی تھی۔ آج 50 عورتوں نے شامی پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ درعا کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ لیکن شامی سیکورٹی فورسز ان پر ٹوٹ پڑیں، انہیں مارا پیٹا اور بہت بڑی تعداد میں انہیں گرفتار کرلیا۔ درعا سے ابھی تک قتل و غارت گری کی خبریں آرہی تھیں۔ شہر پر فوج گولہ باری کر رہی تھی۔ چھ نئے افراد کو شہید کردیا گیا تھا اور ایک ریفریجریٹر سے ایک عورت اور اس کے بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ یہ تصویریں انٹرنیٹ پر جاری کردی گئی تھیں۔ ان کے قاتل
الشبہہ ملیشیا سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسی ہر خبر مجھے دہلا کر رکھ دیتی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اس حکومت کے گرنے سے پہلے آخر کتنے ہزار افراد کا خون بہے گا؟ فیس بک پر میرے صفحے کو ہیک کرلیا گیا تھا اور میری تمام رپورٹیں انہوں نے ڈیلیٹ کردی تھیں۔ صفحے
پر یہ ریمارکس لکھ دیے گئے تھے کہ وہ میری بیٹی کو قتل کردیں گے کیونکہ وہ ایک غدار کی بیٹی ہے۔ خوف سے میری حالت خراب ہونے لگی۔

نا ممکن ہوگیا تھا۔ میں خود کو انتہائی کمزور محسوس کرتی تھی۔ بنیاس میں جو کچھ ہوا اسے تحریرًا
میرے لئے مظاہروں تک پہنچنا تقریب
کرنے کے لیے مجھے اپنی طبیعت پر بہت جبر کرنا پڑا۔ میرا ایک صحافی دوست جو درعا میں محصور تھا کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ وہاں کے تمام حالات سے مجھے آگاہ کرے گا اور وہاں جس طرح قتل عام کیا گیا تھا اس کی رپورٹیں بھی مجھ کو دے گا۔ آج آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت اچھا تھا جو میرے موڈ کو درست کرنے کے لیے بہت کافی تھا لیکن مجھے ہر وقت خطرہ تھا کہ وہ اچانک میرے گھر میں گھس جائیں گے اور انہوں نے میری ویب سائٹ کو ہیک کرنے کے بعد میری بیٹی کے بارے میں جو دھمکیاں لکھی ہیں اس پر عمل درآمد کرنا چاہیں گے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے دوست سے ملاقات میں زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ آج دوپہر ہوتے ہوتے دمشق کا ماحول انتہائی کشیدہ ہوگیا۔ سڑکوں پر سیکورٹی کورسز کا راج تھا۔ فوج نے جگہ جگہ چیک پوائنٹ بنائے ہوئے تھے۔ تمام عمارتوں کی چھتوں پر نشانچی بیٹھے تھے۔ لوگ گھروں سے
باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس کرتے تھے۔ جو لوگ سخت مجبوری میں باہر نکل جاتے انہیں گھر واپسی کی جلدی ہوتی۔ مجھے اطلاع ملی کہ شہر میں مسلح افراد کچھ کاروں میں گھوم پھر رہے ہیں اور مختلف جگہوں پر فائرنگ کر کے لوگوں کو ہالک اور زخمی کردیتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شناخت کرنے کے بعد گولیاں نہیں مارتے بلکہ کوئی بھی شخص ان کی گولی کانشانہ بن سکتا ہے۔ ان کا مقصد صرف
دہشت پھیالنا ہے۔ میں اپنے دوست سے ملنے اس کے گھر گئی جو ایک کمرے کے اپارٹمنٹ پر مشتمل تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں اس سے بہت زیادہ باتیں نہیں کرسکتی۔ لیکن وہ بنیاس کے واقعات کے بارے میں تمام بنیادی معلومات مجھے فراہم کرے۔ اس نے مجھے بتایا کہ مظاہرین بنیاس کی الرحمن مسجد میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ 8 مارچ کو جمعہ کی نماز کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ باہر نکلیں اور آزادی کے
ہی گرفتار کرلیا۔ انہیں حق میں مظاہرہ کریں۔ مسجد سے 200 سے 300 کے درمیان افراد باہر نکلے۔ ان میں سے تین افراد کو پولیس نے فورًا پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ مظاہرین ان کی رہائی کے لیے ان کے پیچھے بھاگے۔ اس دوران گلیوں سے غنڈوں کا ایک گروہ نکال اور اس نے
علویوں کی بسوں کو توڑنا پھوڑنا اور دکانوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ مظاہرین نے انہیں غنڈہ گردی سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہے۔ یہ غنڈے زیادہ تر سنی تھے اور ان کا کام ہی لوٹ مار کرنا تھا۔ ان کی لوٹ مار کی وجہ سے مظاہرے رک گئے۔ اس دوران علوی سیکورٹی فورسز نے شیعوں اور سنیوں کے درمیان نفرت پھیلانی شروع کردی۔ حکومت کی سرپرستی میں علوی غنڈوں کے گروہ اور
شبیہہ ملیشیا کے جنگجو جو نفرت پھیلانے میں مہارت رکھتے تھے باہر نکلے اور انہوں نے ان سنی غنڈوں کے خالف شورغل کرنا شروع کیا جنہوں نے علویوں کی دکانوں اور بسوں کو آگ لگائی تھی اور لوٹ مار کی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے علویوں اور سنیوں کے درمیان فساد پھیلتا چال گیا۔ اگلے دن علویوں کی ایک تنظیم وائس آف الوائیٹس کی جانب سے سنیوں کے خالف مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز نے کچھ سنی لیڈروں کو گرفتار کرلیا تاکہ بحران پیدا کیا جاسکے۔ علویوں کو شہر کے میئر کی حمایت حاصل تھی۔ جس نے یہ عہدہ لاکھوں لیرا ادا کر کے حاصل کیا تھا۔ جب دونوں فرقوں کے لوگ آگے آئے اور انہوں نے فرقہ وارانہ امن قائم کرنے کے لیے بات چیت شروع
کی تو کوئی دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ تاہم ایک سنی عالم شیخ اے آئی کو عوام کو اعتماد حاصل تھا کیونکہ وہ ایک صوفی بزرگ تھا اور اسے ونر علوی دونوں پسند کرتے تھے۔ بنیاس کے لوگوں نے ایک تحریری خط شیخ اے کو دیا تاکہ وہ یہ خط حکومت کو پہنچا دے۔ خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ “تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ایمرجنسی قوانین ختم کیے جائیں۔ نقاب پہننے والی خواتین کو ملازمت کرنے
کی اجازت دی جائے۔ جہاں جہاں شریعہ اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے انہیں کھوال جائے۔ عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات پر پابندی لگائی جائے۔ عوام کو سیاسی آزادی دی جائے۔ بنیاس کی بندرگاہ کے سربراہ کو تبدیل کیا جائے کیونکہ اس نے غریب ماہی گیروں پر نئے ٹیکسز عائد کیے ہیں جن کا اسے اختیار نہیں تھا”۔

جس وقت میرا دوست بنیاس کے حالات کے بارے میں بتا رہا تھا تو اسے دمشق سے نئی قتل و غارت گری کی اطالعات موصول ہوئیں۔ فوج کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ تفاس کے گاؤں سے 42 شہریوں کی الشیں برآمد ہوئی ہیں۔ تفاس کا گاؤں در عا شہر کے نواح میں واقع ہے۔ ان لوگوں کو فوج کے پانچویں ڈویژن کے رہائشی بالک کے قریب قتل کیا گیا۔ یہ الشیں تشرین کے فوجی اسپتال پہنچائی گئیں۔ ان لاشوں کے سر
اور سینے پر گولی کے نشانات تھے۔ ان میں سے بعض لوگ نشانچیوں کی گولی کا نشانہ بنے تھے لیکن زیادہ تر کو الشبیہہ کے غنڈوں نے اغوا کرکے قتل کیا تھا۔ مرنے والے زیادہ تر سنی تھے۔ یہ اتنی دہشت ناک خبر تھی کہ میرا دوست اور اس کی بیوی خاموش ہوگئے اور کچھ دیر چپ رہے۔ میری زبان بھی بند تھی۔ چند منٹ کے بعد ہم نے دوبارہ گفتگو شروع کی۔ ہماری بات چیت جاری تھی کہ میری بیٹی کا ٹیلی فون آنے لگا۔ وہ بے حد خوفزدہ تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ میں بہت جلد گھر واپس آجاؤں گی اور وہ دروازہ اندر سے بند کرلے اور کسی کے لیے دروازہ نہ کھولے۔ پھر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ وہ اپنی کہانی جلد ختم کرے۔ اس نے بتانا شروع کیا کہ فوج کی جانب سے علویوں کے درمیان یہ خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ مظاہرہ کرنے والے سنی فرقہ پرست اور اسلامی بنیاد پرست ہیں۔ ثبوت کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ سنیوں کی عورتیں نقاب پہنتی ہیں) کیونکہ علوی ٓازاد خیال ہیں اور ان کی عورتیں نقاب نہیں پہنتیں (۔ سنی عورتوں
کا تعلق زیادہ تر شریعہ کے کالجوں سے ہوتا ہے اور وہ مردوں کے ساتھ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتیں۔ اس کے مقابلے میں علوی بہت زیادہ لبرل ہیں۔ اس نے بتایا کہ اگلے جمعہ کو ایک مظاہرہ ہوا جس میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔ اگرچہ اس مظاہرے میں سنیوں کی اکثریت تھی لیکن علویوں کا ایک گروپ بھی شریک ہوا۔ ایک نوجوان علوی خاتون نے کھڑے ہوکر مظاہرین سے خطاب کیا اور اس نے کہا کہ وہ فرقہ پرستی کی مذمت کریں اور موجودہ حکومت سے آزادی کی حمایت کریں۔اس نے کہا کہ ہر قیمت پر موجودہ حکومت سے نجات پانے کے لیے سنیوں اور علویوں کو متحد ہو جانا چاہیئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب بشار الاسد کی حکومت سے نجات کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ مطالبہ 15 مارچ کو کیا گیا۔ میرے دوست نے بتایا کہ “سرکاری ٹیلی ویژن کا دعوٰی ہے کہ البائدہ میں لوگوں کا قتل عام نہیں ہوا لیکن میں خود اس کا
عینی شاہد ہوں”۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے گہرے آثار تھے۔ اس نے کہا کہ ” ہم اس کہانی کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں”۔

میں نے کہا۔ “سرکاری ٹیلی ویژن کا دعوٰی ہے کہ وہاں کوئی قتل عام نہیں ہوا”۔ ’’پہلے میں البائدہ کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔‘‘
اس نے کہا،” میں نے ناصرف اس کے آثار دیکھے بلکہ اس کی ایک وڈیو بھی میرے پاس ہے۔ انہوں نے البائدہ ’’وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔‘‘۔ پر قبضہ کرنے کے بعد لوگوں کا قتل عام کیا، انہیں گرفتار کیا اور ان کی توہین کی۔ میرا خیال ہے کہ اس وڈیو میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ اصل واقعہ کا بہت تھوڑا حصہ ہے”۔

ہر شخص جو فرقہ پرست نہیں ہے اس پر سازشی ہونے کا الزام لگادیا‘‘، میں نے پوچھا۔ وہ بولا ’’تم اس بارے میں کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بنیاس کے سنی عالقوں میں چار گھنٹے تک مسلسل گولہ باری کی گئی۔ جبکہ امدادی سامان مسجدوں میں جمع کیا گیا اور یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ فائرنگ کرنے والے کون تھے؟ حاالنکہ فائرنگ کرنے والے لوگ نشانچی تھے”۔
ہر ایک کو معلوم ہے کہ ان نشانچیوں کا تعلق شبیہہ ملیشیا سے ہے۔ ان کا‘‘وہ بولا، ’’میں نے پوچھا کہ” کیا تم ان نشانچیوں کو جانتے تھے؟

مقابلہ کرنے کے لیے کچھ سنیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے ہیں لیکن وہ کسی نہتے علوی پر کبھی فائر نہیں کرتے۔سنیوں نے ہمیشہ اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھائے۔ ہمیں اپنے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ شام میں فرقہ واریت کی بدترین صورت حال بنیاس میں ہے۔ یہاں صورتحال انتہائی خطرناک ہے اس کے باوجود یہاں سنیوں اور علویوں کے درمیان ابھی تک کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔ بنیاس میں رہنے والے سنیوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر کوئی سنی سلفی نہیں رہتا۔ بنیاس کے لوگ کبھی فوج کے خالف نہیں لڑے۔ یہ شبیہہ ملیشیا اور شامی فوج
تھی جو علوی دیہات میں پہنچی اور ان میں ہتھیار تقسیم کیے”۔

میں نے پوچھا کہ “کس نے بسوں کے عملے اور فوجیوں پر گولی چلائی اور کس نے بسوں کو دھماکے سے اڑایا”۔
ان کا کہنا ہے کہ بسوں کو دھماکے سے اڑانے والے دہشت گرد تھے لیکن یہ بسیں فوجیوں کو منتقل کر رہی تھیں۔ یہ بسیں‘‘اس نے کہا، انتہائی عجیب اور پراسرار حاالت میں چالئی جارہی تھیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس جگہ پر یہ بسیں کیوں پہنچیں؟ کس نے ان بسوں کو وہاں سے گزرنے کا حکم دیا؟ ان بسوں نے اپنا راستہ کیوں تبدیل کیا؟ ظاہر ہے فوج کے اعلٰی عہدے دار ان بسوں کو اس راستے پر النے کے ذمہ دار تھے اور انہیں میں سے کسی نے فوجی عملے کو بسوں سے اترنے کا حکم دیا کیونکہ تمام فوجی ہتھیاروں سے مسلح تھے اور وہ یقینا اپنے کسی افسر کے حکم کی تعمیل کر رہے تھے لیکن جب وہ بسوں سے اترگئے تو ان پر چاروں طرف سے فائرنگ کی گئی۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ بنیاس میں اس واقعے کی انٹلیجنس کے پانچ کارندوں نے تفتیش کی۔ انہوں نے فوج کے 23 ویں بریگیڈ کے فوجیوں اور افسروں سے پوچھ
گچھ کی جو فضائیہ سے تعلق رکھتے تھے اور بنیادی طور پر انہیں بنیاس میں آئل ریفائنری اور بجلی گھر کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے میں ماہر الاسد کا کردار مشتبہ رہا ہے جو اسی فوجی ڈویژن سے وابستہ ہے۔ عام فوجیوں کا کہنا تھا کہ اسی نے فوجیوں کو اس راستے پر جانے کا حکم دیا۔ اور یہ شبیہہ کے جنگجو تھے جنہوں نے ان کو گھیر کر ان کا
قتل عام کیا۔ بظاہر اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ علویوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ سنیوں نے علویوں کی حفاظت کرنے والی فوج کا قتل عام کیا اور اس لیے ہر علوی سنیوں کے خالف ہتھیار اٹھالے
مجھے دیر ہورہی تھی اور مجھے جلد سے جلد گھر پہنچنا تھا اس کے علاوہ گزشتہ دو دن کے واقعات کی رپورٹس تیار کرنا تھیں۔ آج کی اطلاعات یہ تھیں کہ سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ الزبندانی کا محاصرہ جاری تھا۔ درعا ابھی تک محصور تھا۔ گزشتہ دو دن میں شام کے شہروں میں مظاہرے ہوئے جن میں دمشق، دیار الزور، حمص، حاما، لطاکیہ، قمشلی، عمودہ، دریا اور الیپو شامل تھے۔ کچھ سرکاری اداروں کی ویب سائیٹس کو ہیک کرلیا گیا تھا۔ ان میں پیپلز اسمبلی اور ایک سرکاری اخبار تشرین کی ویب سائٹ شامل تھی۔ ان
بعثیوں کے جرائم کھل کر سامنے آگئے”۔ اس کے بعد ان صفحات پر مظاہروں کی‘‘ویب سائیٹس پر ایک پیغام چھوڑ دیا گیا تھا جو یہ تھا تصویریں اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ دمشق کو آنے اور جانے والے تمام راستے بند تھے اور جگہ جگہ چیک پوائنٹس تھے۔ درعا میں ایک تصادم
میں چار شامی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سیکورٹی فورسز نے ایک نجی کلینک پر چھاپہ مارا جہاں پر کئی زخمی نازک حالت میں داخل تھے۔ لطاکیہ کے نواحی علاقوں القلعہ اور علوینیہ میں صورت حال بہت خراب تھی۔ درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ فوج نے لوگوں پر براہ راست فائرنگ کی۔ جس سے درجنوں لوگ ہالک ہوئے۔ ایک گھر کی کھڑکی میں کھڑی ایک چھوٹی سی بچی کو بھی فوج کی چلائی ہوئی ایک گولی لگی۔ التال کے قصبے میں خواتین کی بڑی تعداد نے اپنے بچوں کی رہائی کے لیے مظاہرہ کیا۔ الزبندانی میں شہر کے گھیراؤ کے باوجود ہزاروں افراد احتجاج کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکلے۔ شہر کو پانی، بجلی کی فراہمی معطل تھی اور ٹیلی فون لائنیں بھی کاٹ دی گئی تھیں۔ جبلہ میں گھیراؤ کے باوجود مظاہرے جاری تھے۔ الزریبہ اور الصلیبہ میں مسلسل فائرنگ کی گئی۔
سالمیہ میں سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کا حلقہ توڑنے کے لیے برقی پروڈز استعمال کیے۔ الرستان میں فوج کی فائرنگ سے تین افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ بنیاس کے شہریوں نے پھولوں کے گلدستے اٹھا کر مظاہرہ کیا۔ الرستان میں شہید ہونے واال شخص ایک نوجوان
تھا جو اپنے والد کے شہید ہونے کے بعد اپنی ماں اور بہنوں کا واحد کفیل تھا۔ وہ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے صبح سے رات تک کام کرتا تھا اور سب کو معلوم تھا کہ وہ دہشت گرد یا سلفی نہیں تھا۔ دوسرا شہید ایک ٹھیلے پر سبزیاں بیچا کرتا تھا جبکہ تیسرا شہید بھی ایک دکاندار تھا۔ وہ تینوں غریب لوگ تھے اور محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالا کرتے تھے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ سنی تھے۔ فائرنگ پورے ملک میں جاری تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد لوگوں کی ہالکتوں کی خبریں آتی تھیں۔ سیڈان کے پل پر دس نوجوانوں کو شہید کیا گیا جو پرامن مظاہرہ کر رہے تھے۔ حاما میں مظاہرین میں سیکورٹی کے دو اہلکار چھپے ہوئے تھے جو مسلح تھے اور انہوں نے اچانک مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی۔ مظاہرین نے ان سے ہتھیار چھین لیے اور ان کو مارنا پیٹنا شروع کردیا لیکن
تھوڑی ہی دیر میں شامی فوج ان کی مدد کو آگئی۔ درعا میں شامی فوج نے گولہ باری کر کے درجنوں مکانات کو تباہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں ان گھروں کی مکین عورتوں اور بچوں سمیت 83 افراد شہید ہوئے۔ میں تھوڑی دیر میں گھر پہنچ گئی جہاں میری بیٹی پریشان بیٹھی تھی اس کو پریشان اور خوفزدہ پاکر خود مجھے بھی پریشانی ہونے لگی۔ میرا حال ایک چلتی پھرتی لاش کی طرح تھا۔ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو گرتے رہتے تھے۔ میرے منہ کا ذائقہ کڑوے زنگ جیسا ہوگیا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ مجھے اگلے دن ایک صحافی سے ملنا تھا جو درعا کا محاصرہ توڑ کر بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔ سخت دکھ اور پریشانی کے عالم میں میں نے خود کو سمیٹا اور چند گھنٹے کی نیند لینے کے لیے زمین پر پڑگئی۔ لیکن میری آنکھ آدھی رات گزرنے کے بعد لگی۔

4 مئی 2011

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *