سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شامی خاتون کی ڈائری (دسویں قسط)

کی ناکابندی کر رکھی (Baniyas (میں آج ایک اور قتل عام کے بارے میں لکھنے کے لیے بیٹھی ہوں۔ ٹینکوں نے ایک مرتبہ پھر بنیاس
ہے۔ انہوں نے البائدہ اور القمسیہ پر گوال باری کی۔ بنیاس بھوتوں کا شہر دکھائی دیتا ہے۔ فوج اور سیکورٹی فورسز اس شہر میں خالص
فرقہ وارانہ بنیادوں پر گوال باری کررہی ہیں اور صرف سنی عالقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں نے ایک ٹیلی فون کال کرنے کی
کوشش کی لیکن ٹیلی فون کی الئنیں کٹی ہوئی ہیں اسی طرح انٹرنیٹ بھی بند ہے۔ شہر کے ایک اسکوائر پر لوگوں کو چاروں جانب سے
گھیر کر رکھا گیا ہے۔ یہ شہر چار کلومیٹر سے زیادہ لمبا اور چوڑا نہیں ہے۔ آخر وہاں کیا ہورہا ہے؟ حکومت شہروں پر قبضے کرنے کے
لیے فوجی کارروائی کررہی ہے۔ وہ دن کی روشنی میں خود اپنے عوام کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لطاکیہ کو چار حصوں میں تقسیم
کردیا گیا ہے۔ شہروں کے درمیان ہر طرح کے رابطے منقطع کردیے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں۔ مجھے اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔
دوسری شروع

میرے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ میں اپنے ذہن کو صاف کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ایک ناکابندی ختم ہوتی ہے کہ فورًا
ہو جاتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں نے عورتوں کو ہدف بنانا شروع کیا ہوا ہے۔ بنیاس سے باہر المغرب میں تین عورتوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
میرا انٹرنیٹ بند ہے اور مجھے اپنی رپورٹیں باہر بھیجنے کے لیے کسی انٹرنیٹ کیفے کا سہارا لینا پڑے گا لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ

سیکورٹی فورسز ان کی نگرانی کر رہی ہیں اور نیٹ کیفے میںجانے والے لڑکے اور لڑکیوں کو گرفتار کررہی ہیں۔ میرے پاس اس کے سوا
کوئی چارہ نہیں کہ میں گھر ہی میں بیٹھی رہوں۔ اس جمعہ کو مجموعی طور پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے مختلف شامی شہروں
میں مظاہرین پر جو فائرنگ کی گئی ُاس سے تیس افراد ہالک ہوئے۔ سیکورٹی فورسز اور فوج شام کے ہر شہر اور ہر قصبے میں شہریوں کو
گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ خود اپنے شہریوں کے خالف اعالن جنگ کی پالیسی ہے۔ وہ شہریوں کو اس طرح قتل کر کے دہشت پھیال
دینا چاہتے ہیں تاکہ لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں، مظاہروں میں شریک نہ ہوں اور ُاس تحریک کا حصہ نہ بنیں جو شام کی آزادی کی
تحریک ہے۔ دوسری جانب شامی انٹلیجنس نے آزادی کی اس جنگ کو فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں تبدیل کردیا ہے۔ اب گلیوں اور محلوں میں
لوگوں کو صرف اس لیے قتل کیا جارہا ہے کہ وہ کسی خاص فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اب تک مجھے تالش کرنے میں کامیاب نہیں
ن کو میرا ٹیلی فون نمبر پتہ ہے اور وہ ٹیلی فون پر مجھے دھمکیاں بھی دیتے

ہوسکے ہیں کیونکہ میں اپنی جگہیں بدلتی رہتی ہوں لیکن ُا

دھر بھاگتی رہتی ہوں۔ میری صبح ایک جگہ ہوتی ہے اور شام دوسری جگہ ہوتی ہے جبکہ میں رات

رہتے ہیں۔ میں مسلسل ِادھر سے ُا
تیسری جگہ گزارتی ہوں۔ میں نے اپنے خاندان سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔ میں خاموشی سے لکھتی رہتی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ
بات اچھی طرح جانتے ہوں کہ میں اس عالقے میں موجود ہوں۔ لیکن میں اب تک ان سے بچنے میں کامیاب رہی ہوں۔ سیکورٹی فورسز
ٹیلی فون الئنوں کی نگرانی کررہی ہیں اور اہم لوگوں کے ٹیلی فون سنے جاتے ہیں۔ مجھے اپنی ایک صحافی دوست سے ملنا تھا لیکن وہ
گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے گھر سے فرار ہوگئی۔ خود مجھے اگلے دو دن ایک خفیہ جگہ پر گزارنے پڑے۔ سڑکوں پر جو کچھ ہورہا تھا
سے اپنی آنکھوں سے دیکھنا میری خواہش تھی لیکن اب یہ خبریں مجھے اپنے دوستوں اور احباب کے ذریعے پہنچ رہی تھیں۔ لیکن میری
ُا
خواہش تھی کہ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کسی رپورٹ میں شامل نہ کروں۔ میں سمجھنے سے قاصر تھی کہ
بشاراالسد کی حکومت نے شامی عوام کے خالف یہ جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیاں کیوں اختیار کی تھیں۔ درعا میں جو خوفناک واقعہ ہوا وہ
ن کے ساتھ کیا کیا؟ یہاں ایک افواہ

کس طرح شروع ہوا جس میں کئی کمسن لڑکے اہلکاروں کے تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ عاطف نجیب نے ُا
پھیلی ہوئی تھی کہ ماہراالسد نے نائب صدر فاروق الشراہ پر گولیاں چالئی تھیں۔ مجھے ان تمام واقعات کی تفصیالت بھی جمع کرنا
تھیں۔ اس فائل کو مکمل کرنے سے پہلے میری خواہش تھی کہ میں بنیاس میں لوگوں سے رابطہ کرسکوں۔ ٹیلی فون الئنیں ابھی تک کٹی
ہوئی تھیں لیکن میں سمندر کے قریب رہنے والے کچھ دوستوں کی مدد سے بنیاس میں بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ تاہم
ن کے اس جواب سے میں نے خیال کیا کہ وہ حکومت کے ادارٔہ مخابرات سے

انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ُا
خوفزدہ تھے جن کا کام ٹیلی فون سننا اور جاسوسی کرنا تھا۔ ہمیں یہ پتہ چال تھا کہ سیکورٹی فورسز ہمارے موبائل ٹیلی فونوں کے ذریعے
یہ پتہ لگا لیتی تھی کہ ہم اس وقت کہاں ہیں؟ اس کے بعد سے ہم نے اپنے سیل ٹیلی فونوں کو دس میٹر دور رکھنا شروع کردیا۔ آخر یہ کس
قسم کی ناکابندی تھی؟ ہم فضا میں سیکورٹی فورسز کی خوشبو سونگھ لیتے تھے۔ یہ سچ نہیں تھا کہ ہم دہشت محسوس نہیں کرتے تھے۔
جب بھی کوئی ناقابل فہم آواز سنائی دیتی تو میں خوف سے کانپنے لگتی تھی کیونکہ وہ تصدیق کے بغیر بھی لوگوں کو نشانہ بنانے کے
عادی تھے۔ اس تمام خوف و دہشت کے باوجود میرے حوصلے بلند تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام دہشت کے باوجود میں رات کو گہری نیند سو
گئی حاالنکہ یہ کوئی عام پرامن رات نہیں تھی۔ باہر تیز ہوائیں چل رہی تھیں جن کے ٹکرانے سے مکانوں کی چھتیں، دروازے اور
کھڑکیاں بج رہی تھیں۔ اس دوران میں بار بار محسوس کرتی کہ شاید کوئی آرہا ہے۔ مجھے جونیئر افسروں نے دھمکی دی تھی کہ وہ
مجھے اس طرح تشدد کا نشانہ بنائیں گے کہ میں مچھلی کی طرح تڑپوں گی اور کچھ نہیں کرسکوں گی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ کسی
شخص کو عدالت میں پیش نہیں کرتے تھے اور انہیں یہ سب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وہ خود ہی عدالت تھے۔ وہ خود لوگوں کے
فیصلے کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو گرفتار کرنے سے پہلے اس طرح ٹارچر کرتے کہ آس پڑوس کے لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔ انہوں نے بنیاس
میں بھی وہی کیا جو انہوں نے درعا کی ناکابندی کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو گرفتار کرنے سے پہلے سڑکوں پر گھسیٹا اور اس
طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ ان میں سے بہت سے جیل جانے کے بجائے قبرستان پہنچ گئے۔ مجھے سب سے زیادہ تشویش یہ تھی کہ بنیاس فرقہ
ورانہ کشیدگی کا مرکز تھا۔ یہ کشیدگی بشاراالسد کی حکومت نے خود پیدا کی تھی۔ میں جانتی تھی کہ بنیاس کے لوگ ہمیشہ خاموش نہیں
فق پر منڈال رہی تھی۔ بمباری اور دہشت گردی کے ساتھ حکومت نے علویوں

رہیں گے۔ لیکن سب کو خبر تھی کہ فرقہ وارانہ خانہ جنگی ُا
کو بطور انسانی شیلڈ استعمال کرنا شروع کردیا تھا تاکہ وہ فرقہ واریت کو زیادہ سے زیادہ پھیالسکیں۔ مجھے ایک دوست نے ٹیلی فون
کر کے الملقب کے گاؤں میں ہونے والے واقعہ کی اطالع دی جہاں کئی خواتین کو تشدد کر کے ہالک کردیا گیا تھا۔ الملقب بنیاس کا ایک نواحی
گاؤں تھا۔ یہاں تین خواتین کو قتل کیا گیا جن میں 25 سالہ احالم حوری سیکیہ اور لیلٰی طحٰہ ساہیونی اور حمنہ طحہ ساہیونی شامل
تھیں۔ ساہیونی خواتین کی عمریں چالیس سال کے لگ بھگ تھیں۔ 15 عورتیں اس واقعہ میں زخمی ہوئیں۔عورتوں کے سڑکوں پر ٓانے
سے پہلے فوج الملقب کے گاؤں میں داخل ہوئی اور درجنوں لوگوں کو جن میں نوجوان اور بچے شامل تھے گرفتار کر کے لے گئی۔ اس کے بعد
عورتیں گھروں سے باہر نکلیں اور انہوں نے اپنے بچوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ سیکورٹی فورسز اور الشبیہہ ملیشیا نے مظاہرہ کرنے
ن پر ناصرف ٹینکوں سے گولے برسائے گئے بلکہ فائرنگ بھی کی گئی۔ تین عورتیں اس کے

والی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ُا
نتیجے میں ہالک ہوگئیں۔ جبلہ کے شہر میں بھی بالکل یہی واقعہ ہوا۔ اس قصبے کے تمام نوجوان اور بوڑھے جیلوں میں ڈال دئے گئے۔
عورتیں ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے گھروں سے باہر نکلیں تو ان کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں سڑکوں پر بے دردی سے
گھسیٹنے والے الشبیہ کا ٹھک اور سادہ لباس والے تھے۔
میں امید کررہی تھی کہ تشدد کے ان واقعات میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوگا۔ دن میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے چھ نہتے
مظاہرین ہالک ہوئے۔ رات ہوتے ہوتے ان کی تعداد دگنی ہوگئی۔ اگلی صبح یکم مئی تھی اور شہیدون کی تعداد بارہ ہوچکی تھی۔ اس تحریک
کا ٓاغاز پرامن انداز میں فروری میں ہوا۔ اگر بشار االسد کو ان امور کی حساسیت کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو وہ ان مظاہرین سے یہ سلوک
نہ کرتا لیکن وہ تو خود اس نظام کا قیدی تھا۔ اس عرصے میں 800 شہری ہالک ہوچکے تھے۔بعض عالقوں میں شہریوں نے حفاظت خود
اختیاری کے لئے ہتھیار اٹھا نا شروع کردئے تھے اور وہ خاص طور پر الشبیہ کے جنگ جؤوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ لیکن اس سے ٓازادی
کیی تحریک کو کوئی مدد نہیں مل رہی تھی کیونکہ بشار االسد کی انتظامیہ یہی چاہتی تھی۔ انہوں نے ٓاسانی کے ساتھ ایک جمہوری
تحریک کو فرقہ واریت کا رنگ دے دیا تھا۔اب یہ جمہوریت اور ٓازادی کی جنگ نہیں بلکہ فرقے کے تحفظ کی جنگ تھی۔)جاری ہے(

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *