سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ (تیسری قسط)

5 ۔ وکلا، مردہ خانہ اورایکس رے روم اور دھماکہ
5.1 ۔ وکلا کا اجتماع: پیر 8 اگست 2016 کو صبح کے وقت جب وکلا عدالتوں (کچہری، ضلع اور سیشن عدالت اور ہائی کورٹ) میں پہنچے تو انہیں بلال کاسی پر قاتلانہ حملے کی خبر ملی۔ وکلا کی بہت بڑی تعداد اسپتال پہنچی۔ وکلا کا پہلا گروپ ان کی لاش کے اسپتال پہنچائے جانے کے 30 منٹ کے اندر وہاں پہنچ چکا تھا۔ بعد میں بھی وکلا مسلسل آتے رہے۔ اسپتال کے سانحات و حادثات کے وارڈ کی عمارت کے باہر یہ وکلا جمع تھے۔ اس عمارت میں داخلے کا ایک راستہ انسکامب روڈ سے تھا۔

5.2 ۔ بلال کاسی کی لاش مردہ خانے میں رکھ دی گئی تھی۔ ایک ڈاکٹر نے ان کے چہرے اور جسم پر گولیوں کے زخموں کے ٹانکے لگائے جس کے بعد اسے ایکس رے کے لئے لے جایا گیا۔

5.3 ۔ یہاں ہونے والا دھماکہ کسی خودکش بمبار نے کیا۔ اس نے جو جیکٹ پہنی تھی اس میں دھماکہ خیزمواد، اور بال بیئرنگز بھرے تھے۔ دھماکے سے بال بیئرنگز ہر جانب پھیل گئے اور انہوں نے کنکریٹ کی دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ کردئے۔ بال بیئرنگز سے پڑوس میں مردانہ سرجیکل وارڈ کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ یہاں موجود ایک لیڈی ڈاکٹر (ڈاکٹر درین گل ) بھی ہلاک ہوئی مجموعی طور پر ایک بچے اور اس خاتون سمیت 75 افراد دھماکے میں ہلاک ہوئے جبکہ 105 افراد زخمی ہوئے۔ 6 ۔ خودکش حملہ آور اور اس کی شناخت
6.1 ۔ اسپتال میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگز میں خودکش حملہ آور کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے سفید شلوار قمیض کولہوں تک طویل شیروانی، اور کالے جوتے پہن رکھے تھے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں بھورے رنگ کی ایک فائل تھی اور وہ دھیمے قدموں سے چل رہا تھا۔ اس کی عمر 30 کے لگ بھگ تھی۔ اس کی ڈاڑھی سیاہ تھی۔ بالوں میں تیل لگا تھا اور انہیں پیچھے کی جانب کنگھا کیا گیا تھا۔ جب تک وہاں وکلا جمع ہوتے رہے وہ کچھ دور کھڑے ہوکر انتظار کرتا رہا۔ وہ کسی قسم کے نشے میں معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس نے ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں وکلا کے جمع ہونے کا انتظار کیا۔
6.2 ۔ جس وقت داؤد کاسی نے اعلان کیا کہ بلال کاسی کی لاش یہاں سے لے جائی جائے گی تو اس نے اپنے خودکش جیکٹ کا ٹریگر دبا دیا۔ اس نے انتظار اس لئے کیا کہ ہلاکتیں زیادہ سے زیادہ ہوسکیں۔
6.3 ۔ خودکش حملہ آور کا سر نہیں ملا۔ ڈائرکٹر جنرل پی ایف ایس اے کا کہنا تھا کہ عام طور پر خودکش حملہ آور کا سر باقی رہتا ہے۔ کیونکہ یہ باقی دھڑ سے الگ ہوکر دور گرتا ہے۔ لیکن یہ خودکش جیکٹ اتنی مہارت سے بنائی گئی تھی کہ جسم کے ساتھ سر کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ اور اس کا چہرہ مکمل طور پر ناقابل شناخت ہوگیا۔
6.4 ۔ حملہ آور کی دو ٹانگیں گھٹنے سے الگ ہوگئیں۔ پیروں میں نئے موزے اور جوتے تھے۔ جوتوں پر بورجان کابرانڈ لیبل تھا۔ پولیس نے بورجان کی دکان سے تحقیقات کیں۔ دکان کے سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ میں اسے خریداری کرتے دیکھا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ جس نے قیمت کی ادائیگی کی۔
6.5 ۔ ریکارڈنگز کی دستیابی کے باوجود پولیس کو پتہ نہیں تھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ اس سلسلے میں حکومت نے ایک اشتہار بھی شائع کرایا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ جب ان کیمرا بریفنگ میں آئی جی بلوچستان سے دریافت کیا گیا کہ ملزمان کی تصویر کیوں شائع نہیں کرائی گئی تو جواب ملا کہ تصویر زیادہ واضح نہیں تھی۔ ان کے پاس اس سوال کو کوئی جواب نہیں تھا کہ ملزمان کی شناخت کے لئے فارنسک ماہرین کی خدمات کیوں حاصل نہ کی گئیں؟ اس کے بعد کمیشن کی جانب سے ملزمان کی تصویریں اخبار میں انعام کے ساتھ شائع کرائی گئیں۔ ملزمان کی شناخت کے لئے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں ایک مخبر سامنے آیا اور اس نے خودکش حملہ آور کے گھر کا پتہ دیا۔
6.6 ۔ مزید تصدیق کے لئے خودکش حملہ آور کے باپ کے ڈی این اے سے حملہ آور کی ہڈی سے حاصل کردہ ڈی این اے کا موازنہ کیا گیا جو یکساں نکلا۔ حملہ آور کا تعلق ایک ٹوٹے ہوئے خاندان سے تھا ۔ ماں نے باپ سے خلع لے کر دوسری شادی کرلی تھی۔ وہ تعلیمی اعتبار سے کمزور تھا اور اس نے انٹر کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ اس کا دادا پنجاب میں اعوان قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور کوئٹہ میں آباد ہوگیا تھا۔ اس کا باپ ایک اسکول میں چپراسی تھا۔ خودکش حملہ آور کا نام احمد علی تھا۔ اس نے یہ خودکش حملہ اپنی 29 ویں سالگرہ سے دو دن پہلے کیا تھا۔ وہ کوئٹہ میں پلا بڑھا اس لئے تمام مقامی زبانیں مع براہوی بول سکتا تھا۔ اس کا گھر کلی دیبا میں تھا جو بلال کاسی کے گھر سے زیادہ دور جگہ نہیں تھی۔
6.7 ۔ اسپتال میں جس جگہ دھماکہ ہوا اس جگہ کا بھی فارنسک امتحان نہیں کرایا گیا تھا۔ تاہم پولیس نے ملبہ جمع کرکے محفوظ کرلیا تھا اس لئے اس سے بعد میں بہت مدد ملی۔
6.8 ۔ کمیشن کے اصرار پر فارنسک امتحان کرایا گیا۔ اور پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی (ایف پی ایس اے) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ڈائرکٹر جنرل ایف پی ایس اے نے دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا ملبے کا معائنہ بھی کیا۔ اس کے نتیجہ میں ملبے سے ڈیٹونیٹر مل گیا۔ فارنسک ٹیم نے بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کے مقام قتل یعنی مسجد کا دورہ بھی کیا۔ کمیشن کی ہدایت پر وڈیو ریکارڈنگ ایف پی ایس اے کو بھیجی گئی۔ ملزمان کی تصویریں اخبارات میں شائع کرائی گئیں۔ کمیشن کی جانب سے ان تمام کارروائیوں کے نتیجے ہی میں تحقیقات آگے بڑھ سکیں۔ پولیس اسی وجہ سے اب تک آگے بڑھنے میں ناکام تھی۔ افسوسناک بات ہے کہ آئی جی پولیس کو فارنسک معائنے کی اہمیت کی خبر ہی نہ تھی۔
7 ۔ دہشت گرد
7.1 ۔ دونوں حملے انتہائی منصوبہ بندی سے کئے گئے تھے۔ اصل مقصد وکیلوں کی بڑی تعداد کو اسپتال میں موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔
7.2 ۔ ملزمان انسانی فطرت جانتے تھے اور انہیں پتہ تھا کہ جوں ہی بلال کاسی کے قتل کی خبر آئے گی وہ بہت بڑی تعداد میں اسپتال کا رخ کریں گے۔
7.3 ۔ اسپتال کے سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوا کہ حملہ آور اسپتال کی ہر راہداری سے بخوبی واقف تھے۔
7.4 ۔ تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ حملہ آوروں کا افغانستان میں اپنے ماسٹر مائنڈ سے براہ راست رابطہ تھا۔
8 ۔ بم سازی کی جگہ۔ تیسرا جرائم منظر
8.1 ۔ اخبار میں اشتہار کی اشاعت کے بعد ایک مخبر سامنے آیا اور اس نے ایک مکان کی نشاندہی کردی جہاں خودکش جیکٹیں اور آئی ای ڈیز (ریموٹ کنٹرول بارودی سرنگیں) بنائی جاتی تھیں۔ یہ مکان نیو سریاب پولیس اسٹیشن کے علاقے میں تھا۔ اور اسپتال سے 19 کلو میٹر دور تھا۔ سبی کو جانے والی شاہراہ یہاں سے چند سو گز دور سبی ریلوے کراسنگ کے دائیں جانب تھی۔ اس مکان کی بیرونی دیوار 65 x30 فٹ کی تھی۔ باہر ایک بڑا لوہے کا گیٹ تھا۔ مکان بالکل اکیلا کھڑا تھا اور اس سے متصل کوئی دوسرا مکان نہیں تھا۔اس علاقے کی آبادی چھدری تھی۔ مکان کے کماؤنڈ کے اندر ایک جگہ زمین کھودی گئی تھی اور مٹی کا بڑا ڈھیر پڑا تھا۔ یہاں زمین میں بم سازی میں استعمال کرنے کے بعد کچرا دفن کیا جاتا تھا۔
8.2 ۔ مکان کے پہلے حصے میں پلاسٹک کے دو نیلے ڈرام ملے جن میں لکڑی کے تختے مٹی میں دبے ہوئے ملے۔ ان ڈراموں میں دھماکہ خیز مادے، بم سازی کا سامان، ہتھیار، تین خودکش جیکٹیں، آٹھ آئی ای ڈیز، 408 برقی لبلبیاں (ڈیٹونیٹرز) دو پنسل قسم کی لبلبیاں، 83 ریسیورز، 7 ریموٹ کنٹرول، ڈیٹونیٹر تاروں کے دو رول، 8 دستی بم، تین پستول ایمونیشن کے ساتھ، دو کلاشنکوف مع ایمونیشن، دھماکا خیز مادوں اور بال بیئرنگز کی بڑی مقدار،کیمیاویات، اور بم سازی کا دیگر سامان رکھا ہوا تھا۔اس سامان کی اتنی بڑی مقدار ظاہر کرتی تھی کہ دہشت گرد مزید حملے کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔
8.3 ۔ کمیشن کی ہدایت پر پولیس نے پی ایف ایس اے سے رابطہ کیا اور ایک جرائم تفتیش کار ماہر فوری طور پر بھیجنے کی درخواست کی۔رپورٹ کے مطابق اگر مقامی پولیس نے تمام فارینسک امتحانات پہلے کرائے ہوتے تو مجرموں تک بہت جلدی پہنچا جا سکتا تھا۔
9 ۔ دہشت گردوں کا ٹھکانہ۔ چوتھا جرائم منظر
9.1 ۔ مجرموں کا ایک اور ٹھکانہ ہروم زئی، ضلع پشین میں ملا اور اس کا پتہ ٹیلیفون ریکارڈ اور ایک مخبر کے ذریعہ ملادو حملوں کے ملزمان یہیں ٹھہرے تھے۔ پولیس ، دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور لیویز نے5 دسمبر 2016 کی صبح اس ٹھکانے پر حملہ کیا۔ یہ قلعہ نما مکان 12 فٹ بلند دیواروں سے گھرا ہوا تھا۔ پولیس کے وہاں پہنچتے ہی اندر سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دو اراکین زخمی ہوئے۔ ان میں ایک شدید زخمی تھا اور اس کے سر میں گولی لگی تھی۔ زخمی اہلکاروں کو فورا کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ فرینٹیئر کور سے مدد کی درخواست کی گئی لیکن وہ تین گھنٹے بعد بھی نہیں پہنچی۔ دریں اثنا کوئٹہ سے پولیس کی کمک پہنچ گئی۔ دو طرفہ مقابلے میں پانچ دہشت گرد مارے گئے اور ان کے پاس سے دو کلاشنکوفیں اور تین پستول برآمد ہوئے۔ ایک دہشت گرد کو گرفتار کرلیا گیا۔
9.2 ۔ مجرموں کا یہ ٹھکانہ افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے قریب تھا۔ یہاں ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں لیوی فورس تعینات تھی۔ مندرجہ بالا ہتھیاروں کے علاوہ یہاں سے ڈیٹونیٹنگ (پرائما) کورڈ، وائرلیس سیٹس، کیمیاویات اور بارودی سرنگوں مین استعمال ہونے والے فولاد کے ٹکڑے بھی ملے۔ تمام سامان اسی قسم کا تھا جیسا پہلے ملا تھا اور آئی ای ڈیز سازی مین استعمال ہوتا تھا۔
9.3 ۔ پولیس کے مطابق رنگ لیڈر ایک 25 سالہ نوجوان جہانگیر بدینی تھا جس نے خضدار انجینیئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ گروپ کے دیگر ممبران میں 21 سالہ علی حسن، 23 سالہ حبیب اللہ، 26  سالہ سمیر خان اور 33 سالہ نوراللہ اوراحمد علی شامل تھے۔ان میں سے جہانگیر بدینی، علی حسن، سمیر خان، احمد علی (خودکش حملہ آور) کلی دیبا میں رہتے تھے۔ نوراللہ پائے زئی سعیدان، قلعہ عبداللہ اور محمد نصیر (جسے زندہ پکڑا گیا) حروم زئی کا رہنے والا تھا۔

یہ رپورٹ ماہ نامہ اطراف میں قسط وار شائع ہونے کے بعد “بلوچستان سے بے وفائی” کے نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود شام کی یہ کتاب اور دیگر کتابیں 03008210636 سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *