سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کمرشل ازم بے حیائی پھیلارہا ہے

سوشل میڈیا معلومات کا بھی سر چشمہ ہے۔ لیکن متعلقہ کمپنیاں فیس بک بالخصوص اپنے استعمال کنندگان میں تیزی سے اضافے کی دوڑ میں بیہودگی۔ فحاشی۔ عریانی۔ گندی کہانیوں کا بھی سہارا لے رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع کے لالچ میں ہر حد پار کی جارہی ہے۔ والدین کے لیے مشکل ہورہا ہے کہ اپنی اولادوں کو کیسے بچائیں۔ سوشل میڈیا پر ہی اس سلسلے میں تحریریں بھی شائع ہورہی ہیں۔

سری اروبند ایک یوگی ہیں۔ ان کی یہ تحریر بہت موثر تھی اس لیے ہم نے اسے اُردو میں منتقل کروایا ہے۔ آپ بھی اس سلسلے میں کچھ لکھ سکتے ہیں۔ ہمارے صفحات حاضر ہیں۔

پیسے کمانے کی ہوس میں اخلاق کا جنازہ
سوشل میڈیا پر فحش مواد کا غلبہ بیہودہ خیالات۔ غلیظ تصویروں۔ گندی کہانیوں سے گریز کریں۔ صاف ستھرے فن کی نہیں گندی چیزوں کی سرپرستی امریکہ۔

ذہنی طور پر بیمار بچہ بیہودگی۔ بد اخلاقی کے خاتمے کے لیے تجارتی ذہنیت کا دیس نکالا ضروری

٭تحریر: سری اوروبندو ترجمہ: سید عرفان علی یوسف

زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں بڑھتا ہوا کمرشل ازم اور فحاشی میں اضافہ، اعلیٰ اقدار اور نظریات کی کمی، پست اور گھٹیا جبلتوں اور خواہشات کو پورا کرنے کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ سے خوب صورت نظریات نایاب ہوتے جا رہے ہیں اور انہیں اظہار کا موقع نہیں مل پاتا۔ ایک بار ایک بچے نے ماں سے بے ہودہ چیزوں پر مشتمل کتابوں اور جرائد کی بڑی تعداد کے بارے میں پوچھا۔ فحش مواد چاروں طرف گردش کر رہا ہے اور اس کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟
جو کچھ ہم ادب، کہانیوں، ناولوں وغیرہ میں پڑھتے ہیں ان میں اکثر ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہمارے شعور کو پست کرتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس معاملے کو بالکل چھوڑنا اور نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں صرف ادبی نقطہ نظر سے پڑھیں۔ کیا یہ درست جواز ہے؟ آپ نے دیکھا کہ کوئی بھی عجیب و غریب ناول پڑھنے کے لیے کوئی عذر نہیں، سوائے اس کے کہ جب وہ کھلے انداز میں لکھے گئے ہوں اور آپ اس زبان کو سیکھنا چاہتے ہوں۔ خواہ وہ آپ کی اپنی زبان میں لکھے گئے ہوں یا کسی اور زبان میں ہوں اور آپ اس زبان کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں، تو اس کا کوئی جواز بنتا ہے۔ کچھ بھی پڑھیں بشرطیکہ وہ اچھے انداز میں لکھا گیا ہو۔ مثال کے طور پر، کتابوں میں، ہمیشہ وضاحتیں ہوتی ہیں۔ ٹھیک ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ یہ وضاحتیں کیسے کی جاتی ہیں اور مصنف نے چیزوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب کیسے کیا ہے؟ خیالات کے اظہار کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا ہے؟ کرداروں نے کیسے گفتگو کی ہے ؟ کیاآپ ان باتوں میں دلچسپی نہیں لیتے؟ جب آپ کچھ کتابیں جیسے مطالعہ کی کتابیں لیتے ہیںتو آپ صرف یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ جملے کیسے لکھیں اور مافی الضمیر کیسے بیان کریں؟ اگر کتاب بہت اچھی لکھی گئی ہے تو کہانی کیا ہے اس کی زیادہ اہمیت نہیں۔
وہ کتابیں جو شعور کو کم کرتی ہیں:
اگر آپ کتابیں مصنف کے بیانات کے لیے پڑھنا شروع کر دیں، تو اس صورت میں آپ کو زیادہ سخت ہونا چاہیے اور ایسی چیزوں کو نہیں پڑھنا چاہیے جو آپ کے شعور کو تاریک کر دیں، کیونکہ یہ وقت کا ضیاع ہے بلکہ یہ وقت کے ضیاع سے بھی بدتر ہے۔ لہٰذا، بیہودہ کہانیاں اورگندی تحریریں جو بے ہودہ انداز میں لکھی جاتی ہیں، ان کے بارے میں غور کریں۔ ان بے ہودہ تحریروں کو آپ کو ہاتھ نہیں لگانا چاہئے۔ ایسا لگتا ہے کہ سستی طباعت کے ذریعہ فضول لٹریچر سے دنیا کو بھر دیا گیاہے ۔ بُری باتوں کوبیان کیا جارہا ہے۔ غلط تصورات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جو لوگ بیہودہ باتوں کا اظہار کرتے ہیں وہ اچھائی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ بیہودہ خیالات سے آپ کے تصورات کو غلیظ کیا جاتاہے اور بیہودہ تصویروں کے ذریعے سوچ کا ذائقہ بگاڑاجاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ پیداوار کے نقطہ نظر سے چیزوں کوسستا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے لوگ کاروبار میں کامیاب ہو جاتے ہیں،(اس کی سب سے بڑی مثال پورن ہے)۔ مقبول ایڈیشن کوسب کے لیے قابل رسائی” تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کا مقصد نہ تو تعلیم دینا ہے اور نہ ہی ترقی میں مدد کرنا ہے، اس کے برعکس وہ امید کرتے ہیں کہ لوگ ترقی نہ کریں، کیونکہ اگر وہ ترقی کریں گے تو ان کا سامان نہیں خریدیں گے۔ ان کا مقصد ان لوگوں سے ہر قیمت پر پیسہ کمانا ہے جو ان کا لٹریچر پڑھتے ہیں، ان کا لٹریچر، کتابیں وغیرہ جتنا زیادہ بکیں گی ان کو ذاتی فائدہ ہوگا لیکن اس کا نسانیت کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جو لوگ بے ہودہ تحریریں پڑھتے ہیں ان کا ذہن تاریک ہوجاتا ہے اور وہ انسانیت یا قوم کے لیے کوئی مفید کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ فنون لطیفہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ موسیقی اور ڈرامے کے بارے میں بھی ان کا یہی تصور ہے۔. اگر یہ اچھی طرح سے فروخت ہوں تو یہ سب بہت اچھا ہے۔ ورنہ سب کچھ برا ہیَ۔ ڈراموں اور موسیقی میں ننگا پن ان کی مقبولیت کا سبب بنتا ہے لیکن اخلاق کا جنازہ نکال دیتا ہے۔
زندگی پر لاگو ہونے والی تازہ ترین سائنسی دریافتوں نے ہر ایک کی رسائی ہر قسم کی چیزوں تک بڑھادی ہے۔ یہ چیزیں پہلے صرف دانشور اور فنکار اشرافیہ کے لیے مخصوص تھیں۔ اور اپنی محنت اور نفع کو درست ثابت کرنے کے لیے، انہوں نے ایسی چیزیں بنائی تھیں جو سب سے زیادہ بک سکتی ہوں، یعنی سب سے عام، سب سے زیادہ فضول، سمجھنے میں آسان، کیونکہ ان کے لیے کسی محنت اور تعلیم کی ضرورت نہیں۔ دنیا ان بے ہودہ چیزوں کے سیلاب میں اس حد تک ڈوب گئی ہے کہ کوئی اچھی کتاب یا عمدہ ڈرامہ لکھنا ہو تو اس کے لیے کہیں بھی جگہ نہیں کیونکہ ساری دنیا میں گندی چیزیں چھائی ہوئی ہیں۔ گندی چیزوں کی سرپرستی کی جارہی ہے لیکن صاف ستھرے فن کی نہیں۔
تجارتی ذہنیت:
فطری طور پر سمجھدار لوگ وہ ہیں جو بے ہودہ چیزوں کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ بہت مشکل کام ہے. اگر بیہودگی اور بد اخلاقی کا مقابلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے تجارتی ذہنیت کو دنیا سے نکال باہر کیا جائے لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ چند نشانیاں ہیں کہ شاید ان کا پہلے سے بھی کم احترام کیا گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب آپ دیکھتے تھے کہ اگر کوئی کاروبار کرنا نہیں جانتا تھا تو اسے مجرم سمجھا جاتا تھا۔ جو اپنا سرمایہ، بہت اچھی چیزوں پر خرچ کرنے کی ہمت رکھتا تھا، اسے پاگل خانے میں بھیج دیا جاتا تھا۔اس وقت اشرافیہ میں کچھ لوگ اچھی باتوں کی سرپرستی کرتے تھے لیکن اب چند لوگ اب بھی نیکی کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم حقیقی صورتحال سے کافی دور ہیں۔ ابھی تک سنہری بچھڑا دنیا پر راج کر رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس نے لوگوں کے ذہنوں کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ دولت اور اس کے مظاہر کو کامیابی کی کسوٹی سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ میں جب کسی کے بارے میں بات کی جاتی ہے، تو کہا جاتا ہے: ”اوہ، وہ تو ایک ملین ڈالر کا ہے!” یہ واقعی سب سے بڑی تعریف ہے
جو کوئی کرتا ہے۔ پوچھاجاتا ہے، کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں؟ اس کی کیا قیمت ہے؟” -”اس کی قیمت ایک لاکھ ڈالر ہے”، ”اس کی قیمت پانچ سو ڈالر ہے۔” تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج اصل چیز حیثیت ہے۔ ”کیا وہ ذہین ہے، کیا وہ بیوقوف ہے؟ کیا وہ…‘‘ یہ بالکل بھی اہم نہیں کہ وہ اچھا آدمی ہے یا برا؟” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! اصل چیز یہ ہے کہ وہ امیر آدمی ہے یا غریب؟” اگر وہ امیر ہے تو کہا جائے گا کہ ، ’’آہ، آہ! ”میں اسے بہت جاننا چاہتا ہوں!‘‘ اگر وہ غریب ہے تو کہا جائے گا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ فطری طور پر امریکہ ایک نوجوان ملک ہے، لیکن امریکی نوجوانوں کے طریقے ایک بچے کے جیسے ہوتے ہیں، لیکن ایک ذہنی بیمار بچے کے جیسے۔ پرانے بوڑھے اب کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر سکتے، وہ سر ہلاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنی جوانی میں یہی کیا تھا۔ مغرب کی دنیا ذہنی بیمار ہے۔

مصنف: ’سری اروبندو‘ : ہندو فلاسفر، یوگی، مہا رشی، شاعر، اورقوم پرست ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *