سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

اکتوبر جو قیامتیں لے کر آ رہا ہے

محمود شام

اکتوبر کراچی میں تو ہمیشہ بہت گرم رہا ہے .سمندر کی قربت کے باعث. پورے ملک میں بھی خدشہ تھا اور وہ پورابھی ہو رہا ہے۔ نومبر کے خوف سے باقی ملک میں بھی اکتوبر گرم رہے گا ۔بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر میں عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تصادم ہو رہا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اس وقت احتجاجیوں کی قیادت کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر کے باشندے ہمیشہ بہت صابر شاکر اور بہت تحمل والے رہے ہیں۔ ان کی آرزو یہی رہی ہے ::
“مرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن”
یہ اچانک کیا ہوا کہ لائن اف کنٹرول کے اس طرف کے ستم شعاروں کو چھوڑ کر رخ ادھر کے ستم شعاروں کی طرف ہو گیا ۔چنگاریاں تو کئی مہینوں سے سلگ رہی تھیں مگر ہمارے حکمرانوں کا رویہ یہ ہو گیا ہے کہ جب تک شعلے نہ بھڑکیں ان کی توجہ ان دھماکہ خیز مسائل کی طرف مبزول ہی نہیں ہوتی۔ یہ اپنی اڑانوں میں رہتے ہیں۔ حکمرانوں اور عوام میں 1985 کے بعد سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اپریل 2022 میں اور فروری2024 کے بعد جو سیٹ اپ قائم ہوا ہے. اس کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں .یہ احساس حکمرانوں کو خود بھی ہے انہیں یقین رہتا ہے کہ انہیں جو لے کر ائے ہیں وہ سب کچھ سنبھال لیں گے.

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن اور اولادوں کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کا سنہری موقع . حقبے شمار عالمی مسائل ہیں مقامی مسائل ہیں جن کو حل کرنے کی فکر ہی نہیں ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ کیے جانے والے نوجوان سندھ پنجاب میں پانی کے مسئلے پر بیانات کی جنگ ۔غزا کے مظلومین کے لیے امدادی سامان لے جانے والی کشتیوں کے قافلے پر اسرائیل کا حملہ۔ پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق خان اور دوسرے رضاکاروں کی گرفتاری ۔پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ۔غزا میں امریکی صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ۔ یورپ کے شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ۔فلسطینیوں کے مسلمان بھائیوں کی خاموشی۔ اتوار کے لیے ہماری گزارش یہ بھی ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد اپنے محلے داروں سے ملیں محلے کے مسائل پر بات کریں۔ مل جل کر انہیں حل کریں ۔اپنے گھر کو مستحکم کریں اپنے محلے میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ اس طرح شہر خود استحکام پا جائیں گے۔ شہر مستحکم ہوں گے تو ملک بھی مستحکم ہوگا ۔
آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان بہت نازک مقامات ہیں حساس معاملات ہیں۔ ان پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کی نظر رہتی ہے اور یہاں کوئی بھی چنگاری اڑے اسے بھڑکتے شعلوں میں بدلنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ان دونوں وحدتوں کے لیے اسلام آباد کے مسند نشینوں کو ہمہ وقت خبردار رہنا چاہیے۔ انہیں چند وزیروں اور مشیروں کے حوالے نہیں کر دینا چاہیے۔ دونوں جگہ ایسی حکمران ٹیمیں ہوں جن کی جڑیں ان کے اپنے لوگوں میں ہوں۔ ہر وقت یہ بھی دیکھتے رہیں کہ بھارت کے ایجنٹ صورتحال سے فائدہ تو نہیں اٹھا رہے۔::
“لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا”
موجودہ حکمرانوں اور خاص طور پر وزیراعظم کو مان لینا چاہیے کہ ان کی نظریں تو کئی مہینوں سے ریاض اور واشنگٹن پر جمی ہوئی تھیں. انہی مہینوں میں ازاد کشمیر میں لاوا ابلتا رہا ۔مشیروں نے اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو محسوس نہیں کیا ۔اب بھی وہی وزیر مشیر کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں۔ وقتی طور پر اگ بجھانے کی نہیں مستقل بنیادوں پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ پاکستانی ریاست کی بصیرت کی آزمائش ہے کہ عالمی سطح پر اور خطے میں ہونے والی کوششوں اور سازشوں کے تناظر میں آئندہ کم از کم 15/ 20 سال کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے. مطالبات ضرور تسلیم کریں لیکن وقتی طور پر نہیں۔ ان کے اثرات بھی دیکھیں کہاں تک پہنچیں گے۔ اس میں صرف حکمران سیاسی پارٹیوں کو نہیں آزاد کشمیر کے پاکستان کے دانشوروں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور دنیا بھر میں موجود سینیئر کشمیریوں سے بھی مشاورت کریں۔ کرسٹوفر سینیڈن کی کتاب
The untold story of the people of Azad Kashmir
کا مطالعہ عرفان صدیقی صاحب کریں ابھی تو صرف حالیہ مسائل پر بات ہو رہی ہے آزاد کشمیر میں بہت پہلے سے بنیادی محرومیوں کا احساس پایا جاتا ہے۔ ان سب کے تناظر میں آزاد کشمیر کے عوام کا اعتماد حاصل کریں ۔یہاں ایسی حکومتیں قائم کریں۔ جن کی جڑیں اپنے عوام میں ہوں اور جو کشمیریوں کے مزاج سے واقف ہوں۔
۔۔۔۔۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری ہے ۔امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر بھی اسرائیل نے حملہ کیا ہے بہت سی گرفتاریاں ہوئی ہیں ۔عالمی رائے عامہ اگرچہ اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔ مگر نیتن یاہو کو اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے ۔انہوں نے غزا کو مشرق وسطی کا ہانگ کانگ بنانا ہے۔ جہاں عشرت کدے ہوں گے ۔جوا چلے گا۔ بیروت اجڑ گیا ہے ۔اب غزا میں نیا بیروت جنم لے گا ۔نیتن یاہو ڈونالڈ ٹرمپ دونوں کا اس پر اتفاق ہے اس میں وہ عرب ریاستوں اور کچھ مسلم ممالک کو بھی شامل کر رہے ہیں۔یہ کیسا امن سمجھوتہ ہے جو بچوں ماؤں بزرگوں کی لاشوں پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل ایک روز بھی بربریت کا ناغہ نہیں کر رہا ہے۔ غزا صرف ایک پٹی نہیں ہے جو اسرائیل مصر اور بحیرہ روم کے درمیان ایک جنت ارضی بننے کے لیے امریکی سرمایہ کاری کی منتظر ہے ۔اس کی تاریخ بہت قدیم ہے 332 قبل از مسیح سے مختلف سلطنتوں خلافتوں کا دور دورہ رہا ہے۔ 360 مربع میل کے رقبے میں 16 لاکھ فلسطینیوں کی رہائش اور اسے 21ویں صدی میں “دنیا میں سب سے بڑی اوپن ایئر جیل “کہا گیا ہے۔بیسویں صدی میں بہت کچھ دیکھنے والے غزا نے اکیسویں صدی میں صرف بچوں ماؤں بزرگوں کا خون بہتے دیکھا ہے۔ ویسے تو سات اکتوبر 2023 سے ابتلاؤں کا سلسلہ شروع ہوا مگر موجودہ مسلسل روزانہ یلغار مارچ 2025 سے ہورہی ہے۔ نیبتن یاہو ایک سفاک ہلاکو اور چنگیز خان کی طرح غزا میں فلسطینیوں کا صفایا اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ غزا کو فلسطینی انقلاب کی کو کھ سمجھتے ہیں۔ نو دسمبر 1987 سے شروع ہونے والے انتفادہ کا سرچشمہ مزاحمت کرنے والی حماس کا گڑھ مانتے ہیں۔70 ہزار فلسطینیوں کو اسی لیے اب تک شہید کیا جا چکا ہے۔ بچوں کو نشانہ خاص طور پر اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل ہی پروان نہ چڑھ سکے۔ افسوس ہے کہ مسلمان حکمران غزہ کی طرف دیکھنے کے بجائے وائٹ ہاؤس کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔
“حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *