سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

یہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں

محمود شام
03 جولائی 2025

ہم سب پتھر کے ہو گئے ہیں۔ پشاور والے ہوں، اسلام آباد ،پنڈی،لاہور ،کرا چی، کوئٹہ، مظفراباد، گلگت کے۔ مجسمے گرانے پر عدالتیں وکیل حکومتیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ جیتے جاگتے انسان پورے پاکستان کے سامنے موت کے منہ میں جا رہے تھے کوئی حرکت میں نہ آیا ۔زندگی اللّٰہ تعالی کی طرف سے سب سے قیمتی تحفہ ہے لیکن واہگہ سے گوادر تک یہ کس طرح غیر محفوظ ہے۔ کس طرح پامال ہو رہی ہے۔ یہ مناظر ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔سوات کے اس ہوٹل کے مالک کا دل کیوں نہیں دھڑکا ۔سوات کے اسسٹنٹ کمشنر ،ڈپٹی کمشنر کمشنر پر وحشت کیوں نہ طاری ہوئی اس انتخابی حلقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن کی حالت غیر کیوں نہیں ہوئی ۔قومی اسمبلی کے رکن سب کچھ چھوڑ کر موقع پر کیوں نہیں پہنچے۔ اس علاقے کے یا ملک کے شاعروں ادیبوں کے قلم کیوں نہیں تڑپے۔ ڈائریکٹر جنرل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ذہن کی نسیں کیوں نہیں کھنچیں ۔چیف سیکرٹری خیبر پختونخواکو ان لہروں میں پھنسے پاکستانیوں کی چیخیں کیوں سنائی نہیں دیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو اپنی حکومت کی حدود میں موت ڈیڑھ گھنٹے تک 13 انسانی جانوں کی طرف بڑھتی کیوں نظر نہیں آئی ۔گورنر خیبر پختونخوا کے دل اور دماغ نے انہیں کچھ کیوں نہیں کہا ۔یہ پوری کائنات اللّٰہ تعالی نے اپنے نائب یعنی حضرت انسان کے تحفظ کیلئےتخلیق کی ہے۔ یہ جو اس بدقسمت دن ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز تھے ان کی ذمہ داری یہی تھی کہ ایک ایک جان کی حفاظت کریں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر ،کشتیاں ،ہیلی کاپٹر ہوائی جہاز انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے ہی وجود میں لائے گئے ۔ایک یا دو نہیں 13 انسان جن میں بچے تھے مائیں بہنیں اور بھائی 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں اتنے بے بس کیوں تھے۔ جبکہ انسانی زندگی کے تحفظ کیلئےجدید ترین ٹیکنالوجی ایجاد ہو چکی ہے دریا کنارے ہوٹلوں بنگلوں میں رہنے ٹھہرنے والوں کیلئے ہدایات مرتب کی جا چکی ہیں تیز ترین معلوماتی رابطے ہیں سوشل میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر غلبہ پا چکا ہے۔انسانی زندگی کو حادثے سے بچانے کے بجائے ہم اس قیامت اور عذاب کی ویڈیو بنا کر وائرل کرتے ہیں۔ ڈالر کمانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔روپیہ انسان سے کہیں بڑا ہو گیا ہے پاکستان سب سے زیادہ آبادی پیدا کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے لیکن اس آبادی کی بہبود کیلئےسب سے زیادہ بے پروائی بھی پاکستان میں ہی ہو رہی ہے۔ سرکار بھی انسانی جان بچانے بچہ زچہ کی تندرستی کیلئےغیر ملکی قرضے لے رہی ہے غیر سرکاری تنظیموں کا بھی جال بچھا ہے۔ بہت شاندار دفاتر ہیں،ان کی امدورفت کیلئے بہت قیمتی گاڑیاں ہیں۔ ہیلی کاپٹر ہیں مگر وہ عام انسانوں کیلئےنہیں صرف خواص کیلئے حرکت میں آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ملک میں اسی لیے مقبول ترین پارٹی ہے کہ عوام 1985ءسے باریاں لینے والی پارٹیوں کے اندازِ حکمرانی سے بیزار ہو چکے ہیں۔اس لیے وہ ضمنی انتخاب ہوں یا عام انتخابات پی ٹی آئی کو ووٹ دیتے ہیں۔

عمران خان کی مزاحمت پر اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن 15 سال سے خیبر پختونخوا میں حکمران پی ٹی آئی کی کارکردگی تو اسے باریاں لینے والی پارٹیوں کی طرح ہی بے حس پتھر دل اور خواص نواز ثابت کر رہی ہے۔ دریائے سوات ہو یا کوئی اور دریا یہ ہماری خوشحالی کی شہ رگیں ہیں۔ اور پانی تو بہت ہی قیمتی نعمت ہے ۔حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ دریاؤں کا راستہ نہ روکیں ۔ورنہ دریا اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں اور خس و خاشاک کو بہا لے جاتے ہیں۔ اسی طرح سمندر کا راستہ بھی نہیں روکنا چاہیے۔ سمندر کا انتقام بھی بہت بھیانک ہوتا ہے ۔گرمیوں کی چھٹیوں میں سندھ پنجاب کے متوسط طبقوں کے لوگ شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ شمالی علاقے سوئٹزرلینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں کبھی ہم نے سوئس لوگوں سے زندگی بچانے کی تراکیب سیکھیں۔ سوئس بینکوں میں اپنے اثاثے تو بچائے لیکن کبھی یہ نہیں دیکھا کہ وہاں ہزاروں جھیلیں دریا منہ زور پانی سے لبریز ۔وہاں ایسے حادثات نہیں ہوتے ۔دریا بہت مہربان ہوتے ہیں مگر جب ان کا راستہ روکا جاتا ہے تو وہ قاتل بن جاتے ہیں ۔وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ وہ اپنے بہاؤ پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ پاکستان تحریک انصاف کی اڈیالہ سے باہر قیادت نے اپنی اس کوتاہی پر کسی سے کوئی جواب طلب کیا۔ کسی کو مستعفی ہونے کیلئے کہا ۔پوری دنیا میں انسانی زندگی اسی طرح پامال ہو رہی ہے اقوام متحدہ پتھر دل ہو گئی ہے ۔اڑھائی سال سے اسرائیل کی بربریت نہیں روکی جا سکی ہم ٹیکنالوجی کی جدت اور ندرت پر اور اسکے ذریعے دشمن پر برتری حاصل کر کے خوش ہوتے ہیں لیکن یہ ٹیکنالوجی خود انسانی زندگی کیلئے کتنی ہلاکت خیز ہوتی جا رہی ہے۔ شاعروں نے ان ہلاکت خیزیوں پر نظمیں لکھنا بند کر دی ہیں۔ کوئی اعلیٰ ناول تخلیق نہیں ہو رہا ہے۔ اردو میں صرف جواز جعفری جنگ مخالف نظمیں لکھتے دکھائی دیتے ہیں ۔اچھا کیا گلزار جاوید صاحب نے کہ ماہنامہ’’چہار سو‘‘ کا تازہ شمارہ جواز جعفری سے منسوب کیا ۔یہ عسکریت دہشتگردی اور جنگی جنون کے خلاف ایک لائق تحسین جرات ہے۔ انسانی زندگی ان دنوں دنیا بھر میں بالخصوص غزہ میں جس بربریت کا سامنا کر رہی ہے یہ مناظر دیکھے نہیں جاتے۔ فلسفی عالمی سطح پر خاموش ہیں ۔انسانی حقوق کی تنظیمیں قراردادیں بھی پیش نہیں کر رہی ہیں۔ یورپی یونین کا اتحاد بھیانک جنگوں میں ہلاکتوں کے تناظر میں ہی وجود میں آیا ہے لیکن ہولو کاسٹ نے انہیں بلیک میل کیا ہوا ہے۔ اڑھائی سال سے جاری غزہ میں جو بھیانک ہولو کاسٹ ہو رہا ہے۔ اس پر یورپی ذہن برہم کیوں نہیں ہوتا ۔جان ہے تو جہان ہے۔ زندگی ہے تو بندگی ہے۔ دل لگی ہے جمہوریت ہے۔ مضبوط دفاع ہے۔ زندگی سے پیار ہی انسان کی عظمت ہے میزائلوں پر نہ اِترائیں اور ڈرونوں کو جان لینےکیلئے استعمال نہ کریں ڈرونوں سے جانیں بچ بھی سکتے ہیں ٹیکنالوجی کو سیاحتی مقامات پر زندگی بچانےکیلئےبروئے کار لائیں دریائے سوات کے ایک غیر محفوظ جزیرے میں یہ 13 ہم وطن جس بے کسی اور بے بسی میں مبتلا رہے یہ منظر صدر مملکت ،وزیراعظم ،فیلڈ مارشل صوبائی گورنروں، وزرائے اعلی سب کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ 21 ویں صدی کی تیسری دہائی میں یہ اٹھارویں صدی کی بے بسی ہمارے سسٹم کو للکار رہی ہے۔ کیسی جمہوریت۔ کیسی عسکری برتری۔ کیسی آئینی ترامیم اور کیسی عدالتیں اگر اس طرح اللّٰہ تعالی کا نائب انسان دریا کی لہروں کے آگے بے بس ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے بہت سے لوگ تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی حکمران ذمہ داری قبول کر کے استعفیٰ نہیں دیتا حالانکہ یہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں آج کی تیز رفتار دنیا میں ڈیڑھ گھنٹہ بہت ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *