سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

جنوبی ایشیا ہلاکت خیز اسلحے کی تجربہ گاہ

غربت بے روزگاری اور گنجان آبادی والے جنوبی ایشیا کو پھر ہلاکت خیز اسلحے کی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔

دونوں طرف میڈیا فتح کے ڈنکے بجا رہا ہے۔ احساس نہیں ہے کہ یہ سارے تجربے انسان پر ہو رہے ہیں جو کسی کا باپ ہے ماں ہے بہن ہے بیٹا ہے شوہر ہے۔ سب کسی نہ کسی کے پیارے ہیں۔ یہ جو ہلاکت خیز ہتھیار بنانے والے ملک ہیں۔ ان کے محقق اطمینان سے دن رات اندازے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ہماری تلوار کی دھار کتنی تیز ہے ۔گردن اتارنے میں کتنے منٹ لگاتی ہے۔ ہمارے کارخانوں نے یہ جو نئے نئے ہر سائز کے کھلونے بنائے ہیں۔ ان کے ذریعے موت ہمیں کتنے ڈالر میں ملتی ہے۔ ہر آلہ قتل پر ہمارے ملک کو کتنا نفع ہوتا ہے۔ امریکہ کی کوشش تو یہ ہے کہ کشت و خون کا بازار اس کی حدود سے کہیں دور گرم ہو۔ یورپ نے کئی کئی سال کی جنگیں دیکھی ہیں۔ لاکھوں انسان ہلاک ہوئے لاکھوں مکانات جل کر راکھ ہوئے اب وہ جنگ نہیں دیکھنا چاہتے۔ سرحدیں ختم کر دی ہیں۔ پاسپورٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ سب ملک اب اپنی ہلاکت خیز ایجادات کے تجربے افریقہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں کرتے ہیں۔ انبیاء کی سرزمین میں انہوں نے اپنا ایک لڑاکا اسرائیل پال پوس کر تیار کر رکھا ہے جو امریکی فرانسیسی اور دوسرے ہتھیاروں سے فلسطینیوں پر ہلاکت کے تجربے کرتا ہے۔جنوبی ایشیا میں اسرائیل کا کردار انڈیا سے کروایا جاتا ہے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور دنیا بھر کے معاملات پر تبادلہ خیال کا دن۔ آج تو جنوبی ایشیا کے اسرائیل انڈیا کے ڈرون کے تجربات پر بات ہونی چاہیے جو پاکستان کے ہر صوبے میں ہی آزمائے گئے۔ سب سے زیادہ پنجاب کے شہروں میں۔ یہ سب باتیں بہت غور طلب ہیں ۔پہلے جاسوس کلبھوشن جیسے بھیجے جاتے تھے اب یہ بنا پائلٹ اڑنے والے جاسوس طیارے کتنے شہروں تک مسافت طے کر کے پہنچ رہے ہیں۔ یہ اہداف کیوں طے کیے گئے اور کہاں کہاں صحیح نشانے پر لگے ہیں ۔دشمن اب تک کتنی معلومات حاصل کر چکا۔ ہمارا فضائی دفاعی نظام کس حد تک جانچ چکا۔ بات ہونی چاہیے لیکن یہ خیال رہے کہ اب ہم حالت جنگ میں ہیں ڈرون کہیں بھی پہنچ کر شعلے بلند کر سکتا ہے۔ 2025کی جنگ 1965 اور 1971 کی جنگوں سے بالکل مختلف ہے۔ ان روایتی جنگوں میں ایک پروٹوکول ہوتا تھا کہ پہلے کون سا ہتھیار پھر کون سا اب زیادہ ہلاکت خیز ہتھیار ہیں اور پہل کرنے والا غالب رہتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں گزشتہ جنگوں کی نسبت انسانی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ زمین وہی ہے اس پر پہلے سے کہیں زیادہ انسان بس رہے ہیں ان کی ضرورت کے مطابق بلڈنگیں، اسکول ،یونیورسٹیاں، سرکاری دفتر، اسمبلیاں، شاہرائیں ،موٹر ویز ریلوے اسٹیشن بندرگاہیں بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں تہذیب کی رفتار رک جاتی ہے۔ تمدن متاثر ہوتا ہے۔ درسگاہیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ تجارت میں رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ پروازیں معطل ہونے سے سینکڑوں مسافر ایئر پورٹوں پر پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ صرف جنگ والے علاقوں میں نہیں دوسرے ملکوں کی ایئرپورٹیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

کیا کوئی تحقیقی ادارہ کوئی میڈیا یہ ریسرچ کر رہا ہے کہ نریندر مودی یہ تباہ کن جنگ چھیڑ کر کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے 15 اگست 1947سے ہندوستان میں اقتدار ہمیشہ ووٹ سے منتقل ہوا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ بھی۔ کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ اسمبلیوں میں کھلے مباحثے ہوتے ہیں۔ عدالتیں بھی آزاد ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی طاقتور۔ درسگاہیں ہر شعبے میں اعلیٰ تعلیم دے رہی ہیں۔ کارپوریٹ ادارے ہیں ٹرانسپورٹ کا وسیع نظام زیر زمین ریلوے لیکن جنگی جنون اب بھی وہی ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا اور بیسویں صدی کے اواخر والا۔ کیا یہ جمہوریت کی رائےگانی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو جمہوری تسلسل نہیں رہا۔ مارشل لا لگے۔ فوجی حکومتیں رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہر شعبے میں رہا ہے۔ اس وجہ سے قیادت کا معیار پست ہو سکتا ہے۔

جمہوریت، اعلیٰ تعلیم، خوشحالی، اقتصادی ترقی بھارت کو مہذب اور امن پسند کیوں نہ بنا سکی۔ پاکستان کی طرف سے انہیں عدم تحفظ کا احساس کیوں رہتا ہے۔ کشمیریوں پر ان کا جبر ہر پارٹی کی حکومت میں کیوں رہتا ہے۔ ان کا میڈیا کتنا ہی آزاد ہو پاکستان کے حوالے سے وہ ہمیشہ اپنی وزارت خارجہ کے احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ عالمی ادارے اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، عالمی بینک کشمیر کے تنازعے کو طے کروانے کیلئے بھارت پر زور کیوں نہیں دیتے؟ بھارت کے اس مسلسل جنگی جنون کی وجہ سے پاکستان ایک سیکورٹی اسٹیٹ بنا رہتا ہے۔

مئی 2025کی جنگ کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پوری دنیا میں قیادت کا بحران ہے۔ کہاں کینیڈی جانسن اوباما اور کہاں ٹرمپ۔ لیکن وہاں ایک سسٹم ہے جو امریکی روایات کو سنبھالے رکھتا ہے۔ امریکی جمہوریت پہلے دنیا کو تازہ ولولے دیتی تھی متاثر کن امریکی فلمیں دنیا بھر میں بڑے شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔ روس میں پیوٹن نے روسی غلبے کو تو بحال کیا ہے لیکن ان کی پالیسیوں میں آفاقی تناظر نہیں ہے جو کمیونسٹ روس میں تھا۔ مشرق ِوسطیٰ تو امریکی یورپی یلغار اور نیٹو نے قیادت کے حوالے سے کھنڈر بنا دیا ہے۔ چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ اسرائیل دندناتا پھر رہا ہے۔ اب شاہ فیصل ہیں نہ ناصر نہ قذافی، صدام حسین نہ بو رقیبہ۔ ایشیا میں اب کوئی قائد اعظم ہے نہ نہرو نہ سوکارنو نہ بھٹو نہ مہاتیر۔ آبادی بڑھ رہی ہے۔ ہلاکت خیز اسلحہ ایجاد ہو رہا ہے ایسے میں صرف چین ہے جس سے پرامن ماحول کیلئے انسانیت کو بہت توقعات ہیں۔اس کی قیادت انسانیت کے وقار کو تحفظ دینا چاہتی ہے۔ وہ سب چھوٹے بڑے ملکوں کو خوشحال اور خود کفیل دیکھنا چاہتی ہے۔

جنوبی ایشیا میں نئی گریٹ گیم شروع ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی کے پیچھے کون کون سی ایمپائر کھڑی ہے۔ اس کے اہداف میں مسجدیں اور مدارس کیوں تھے کون سی عالمی طاقتوں کی نظروں میں مدارس کھٹکتے ہیں۔ مسلمان ملکوں نے اس پر کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت میں ہمارے اہداف کیا ہونے چاہئیں۔ کیا پاکستان بھارت کی کھلی اور بڑی جارحیت کے مقابلے کیلئے تیار ہے۔ کیا ملک میں مطلوبہ یکجہتی کی فضا اور سازگار ماحول کے قیام کیلئے سنجیدہ سیاسی کوششیں کی جا رہی ہیں، کیا پاکستان میں ہر منصب پر مامور افراد بھارت جیسے عیار سفاک دشمن کے مقابلے کی اہلیت رکھتے ہیں، کیا اس وقت پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریریں اس معیار کی ہیں جو عالمی طاقتوں کو متاثر کر سکیں اور جو 25 کروڑ کی آبادی اور انتہائی حساس محل وقوع والے ملک کی حقیقی ترجمان ہوں۔ اس تجربہ گاہ میں ہم سب کی آزمائش ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *