سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

آئیے آگے بڑھتی قوم کا کردار ادا کریں

مشرق سے بھی خطرات ہیں اور مغرب سے بھی۔ اور اندر بھی اعتبار اور اعتماد کا سنگین بحران ہے۔ ساری قوموں پر ایسے پیغمبری وقت آتے رہے ہیں اور یہی وہ عرصہ ہوتا ہے جب ملت اپنے آپ کو دریافت کرتی ہے۔ اپنے اصل دشمن کی شناخت کرتی ہے۔ 1948۔ 1965۔1971 کے چیلنجوں کے مقابلے میں 2025 کا یہ معرکہ اس لیے اہم اور زیادہ توجہ کا حقدار ہے کہ یہ 21ویں صدی کی تیسری دہائی ہے دنیا خود کو دریافت کرتے ہوئے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ہم دوسروں کی جنگیں لڑتے ہوئے، غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے، اپنے مفادات کا تعین نہ کرتے ہوئے، ‘اپنی ترجیحات کو ترتیب نہ دیتے ہوئے، ‘خبط بصیرت میں مبتلا حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں کے باعث بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔اور ان دنوں میں بھی ہم ایک دوسرے سے خوف میں مبتلا اصل راستے سے بہت دور ہیں۔ آئندہ 20,15 برس کا کوئی روڈ میپ ہمارے سامنے نہیں ہے ہم آئی ایم ایف کی قسطوں کے مطابق وقفوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تاریخ ہمیں دیکھ کر اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیتی ہے جغرافیہ بھی کنکھیوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ یہ تو اس لمحے نے پھر باور کروا دیا ہے کہ ہمارا ازلی بیرونی دشمن بھارت ہی ہے جس نے ہمیشہ ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اسے یہ فوقیت رہی ہے کہ اس نے اپنی ترجیحات کا تعین کر لیا ، اپنے کئی کئی برس کے روڈ میپ طے کر کے ان پر عمل درآمد بھی کر لیا۔ نسل در نسل اور ہر سیاسی جماعت کا، ریاست کے ہر ادارے کا یہ ہدف رہا ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر، تہذیبی اعتبار سے، تعلیمی پہلو سے آگے نہیں بڑھنے دینا، کشمیریوں کو آزادی سے محروم رکھ کر وہ دو قومی نظریے کو زندہ رکھتا ہے۔ ہر ایسے بحرانی عرصے نے ہم پاکستانیوں کو اپنی دریافت کا موقع دیا لیکن ہمیں اپنے تشخص کی شناخت سے اِدھر اُدھر بھٹکا دیا گیا، ہمیں عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا گیا۔ ہم جنوبی ایشیا کے سرحدی علاقوں کے نگہبان رہے ہیں۔ انہی علاقوں پر 1971کے بعد کا پاکستان مشتمل ہے۔ تاریخ کی کئی صدیوں پہلے سے علم تہذیب ثقافت دانش کا مرکز یہی علاقے رہے ہیں۔ ایک مملکت کی صورت میں نہ سہی اپنی اپنی اقلیموں میں مختلف ناموں اور مختلف حکمران خاندانوں کے تحت لیکن یہاں درس و تدریس فکری تبادلے اور فکری تحریکوں کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ کہیں پانچ ہزار کہیں آٹھ ہزار کہیں 10ہزار سال پہلے کے تمدن کے آثار ملتے ہیں ۔حملہ اور آتے رہے ہیں۔ تہذیبیں تہذیبوں میں ملتی رہی ہیں پھر جب اللہ تعالی کا پسندیدہ آخری دین اسلام اپنے شعائر اپنی تعلیمات لے کر آیا اور پھر اس علاقے میں صوفیاء کرام، اولیاء عظام نے اپنے ملفوظات اور اپنی شاعری سے سینے گرم کیے تو ہماری شناخت اور زیادہ معتبر اور مستحکم ہوتی گئی۔1947 میں جب یہ علاقے پاکستان میں شامل ہوئے تو ان کے ساتھ ان کی صدیوں کی تہذیبیں ثقافتیں اور صوفیائے کرام کی دانش بھی تھی۔ یہ میراث یہ تہذیبی ورثے تمدنی خزانے لسانی دولت سب لائق قدر تھی۔ انہیں قبول کر کے ان کی بنیاد پر ایک نئی مملکت تعمیر کی جا سکتی تھی۔ ماضی کی صدیوں اور نئی صدیوں کا امتزاج ہی ایک تابندہ اور مستحکم مستقبل کو تعمیر کر سکتا ہے مگر آگے بڑھنے کے بجائے ہمیں الجھایا گیا۔ عدم تحفظ کے احساس میں ہم وطنوں نے بھی اور غیروں نے بھی شدت پیدا کی۔ صرف دفاعی حوالے سے نہیں معاشی اعتبار سے بھی اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے ہمیں مغربی ملکوں کا دست نگر بنایا گیا۔ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا گیا اپنے معدنی وسائل اور اپنے افرادی وسائل کی دریافت اور تخمینہ ہماری ترجیحات میں نہیں رہا۔ اپنی زرخیز زمینوں پر انحصار ہماری قومی پالیسی نہیں رہی اپنے دریاؤں سے اپنی پیاس بجھانا ہمارا شعار نہیں رہا ہے۔ دریاؤں پر جھگڑا ‘نہروں پر ایک دوسرے سے ٹکراؤ، ہمارا وطیرہ رہا ہے۔ بہت کم ایسے رہنما آئے جنہوں نے وادی سندھ کا اجتماعی طور پر جائزہ لیا۔اپنے شہروں اپنی زمینوں اپنے ریگزاروں اپنے صحراؤں میں اپنے سمندر کی تہوں میں جھانکنے کے بجائے ہم واشنگٹن کے مختلف دروازوں پر دستکیں دیتے رہے۔ سندھ پنجاب جنوبی پنجاب بلوچستان سرحد کے صوفیا ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کی دعوت دیتے رہے۔ ہمارے پہاڑ ہمارے ریگزار بھی نامعلوم خزانے لیے ہوئے تھے اور لیے ہوئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے بازوؤں میں بہت توانائیاں ہیں لیکن ہم انہیں بیزار کرتے رہے۔ ہماری تعلیم وتربیت اپنے چھپے خزانوں کی دریافت سے متعلق نہیں تھی ہمارے نصاب میں اپنی زمین کی پرتیں دیکھنا شامل نہیں تھا۔ ہم نے ارضیات پر کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی۔ دریاؤں کی گہرائی نہیں ماپی۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو اپنی زمین سے محبت کرنا نہیں سکھایا۔ وہ یورپی ملکوں میں جانے کیلئے اپنی جائیدادیں بیچتے رہے۔ بحیرہ روم میں اپنی قیمتی جانیں اور اپنی ماؤں کے خواب غرقاب کرتے رہے۔ ان سات دہائیوں میں ہمارے وجود کو مٹانے کے در پے بھارت نے اپنے قومی مفادات کا تعین کیا اور ان کے حصول کیلئے آگے بڑھتا رہا اپنے قدرتی وسائل کے بھرپور استعمال سے اپنے آپ کو مستحکم بھی کرتا رہا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت اور اس کے برخلاف اس نے بے شمار ڈیم بنائے۔ ہم نے جو ضروری ڈیم تھے وہ بھی نہ بنائے۔ بھارت کا میڈیا یونیورسٹیاں تحقیقی ادارے اپنے معدنی قدرتی اور افرادی وسائل کی اہمیت پر کتابیں رپورٹیں مرتب کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے تعصبات کو اپنی پیشرفت کی بنیاد بنایا۔ ان کے ہاں شہریوں کو روزمرہ کی زندگی میں بہت آسانیاں فراہم کی گئیں زیر زمین ریلوے کا نظام بھی کئی شہروں میں شروع کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ کے دوسرے وسائل میں بھی بہت آسانیاں مہیا کی گئیں انہوں نے اپنے یونیورسٹی نصابوں میں بھارت ماتا کو ترجیح دی، توسیع پسندی کو فروغ دیا۔ ہم صرف ایک امیر طبقے کو سہولتیں فراہم کرتے رہے۔ اکثریت کو محرومیوں سے دوچار کرتے رہے۔ اب ہمارے اس دشمن نے ہمیں کمزور جان کر پھر للکارا ہے۔ ہمیں صرف عسکری سطح پر ہی نہیں ا سکے مجموعی چیلنج کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں ہر شعبے میں اپنی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ خاص طور پر نئی نسل کو طاقتور بنانا چاہیے حکمرانوں کی ہی نہیں سیاسی جماعتوں یونیورسٹیوں تحقیقی اداروں اور پرنٹ الیکٹرانک میڈیا کی یہ قومی ذمہ داری ہے، مختلف شعبوں میں ہم بھارت کی پیشرفت اور اپنی صورتحال پر نظر ڈالیں۔ جتنے ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس خلا کو پر کریں اندرونی تضادات کو ہوا دینے کے بجائے سب کو قریب لائیں اور ایک آگے بڑھتی قوم کا کردار ادا کریں….

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *