ہم نے جو راستہ اختیار کیا۔ وہ بہت کٹھن تھا مگر آج تک کوئی پشیمانی نہیں ہوئی ہے۔ دوسرا راستہ تھا مصالحت اور مصلحت کا۔ ادارہ بچ جاتا۔ اور ‘معیار’ ایک منفعت بخش پبلشنگ ہاؤس ہوتا۔ جس میں ہماری اولاد بھی اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہوتی۔ مگر یہ نہ تو نوشتہ تقدیر تھا۔ اور نہ ہی ہمارا روڈ میپ۔ کیوں کہ ہمارے ذہن میں خاص طور پر مولانا ابوالکلام آزاد مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان کا ماڈل تھا۔ پھر ان دنوں اٹھنا بیٹھنا بھی باغیوں کے ساتھ تھا۔ ‘امن’ کے ایڈیٹر افضل صدیقی۔ ‘صداقت’ کے ایڈیٹر مالک رانا بشیر احمد۔ ‘مساوات’ کے چیف ایڈیٹر ابراہیم جلیس۔ ہم سب ایک دوسرے کو شہ دیتے اور اپنے راستے پر خوش و خرم چلتے رہتے۔ (صفحہ 292)
- میراثِ تمدن صرف 31 اکتوبر تک - June 19, 2025
- قومی سیاسی پارٹیاں، کتنی سیاسی کتنی جمہوری - June 15, 2025
- پاکستان: انسان پر سرمایہ کاری کیوں نہیں - June 12, 2025