سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

شام بخیر جھلکیاں (پہلی قسط)

عرضِ مصنف

یہ بھی ایک نیا تجربہ ہے۔ 860 صفحات پر مبنی خود نوشت سے چند جھلکیاں۔ اپنے نوجوان قارئین کے لیے۔ آپ کی طرح ہمیں بھی کتاب پڑھنے کا جنون ہے۔ آپ کی طرح ہم بھی کوشش کرتے تھے کہ ہم حقیقت سے آگاہ رہیں۔

پہلے تو یہ انکشاف کہ ہم بھی کبھی جوان تھے۔ اپنی نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ مسلمہ مورخین۔ صاحب طرز ادیبوں کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ان کی صحبت کے لیے سفر اختیار کرتے تھے۔ اب ہم نے اپنی ان مسافتوں، سفروں اور صحبتوں کی کہانی ان صفحات میں سمیٹنے کی ناکام سعی کی ہے۔

“شام بخیر” کی تکمیل میں پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ کووڈ کی عالمگیر وبا نے ویسے تو بہت تباہی مچائی۔ دنیا بھر کی معیشت کو تہہ و بالا کر دیا۔ امریکہ۔ اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہزاروں انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ لیکن کووڈ ہم پڑھنے لکھنے والوں کے لیے غنیمت بن گیا۔ بہت سی نئی کتابیں پڑھیں۔ بہت سے ناول انگریزی اور اردو دوبارہ ختم کیے۔ اور کووڈ کا یہی عرصہ مارچ 2022 سے ستمبر 2023 تک بڑا خوش گوار ثابت ہوا کہ ہم نے 2011 سے شروع کردہ ناول “انجام بخیر” بھی اپنے انجام کو پہنچایا۔ اور کئی سال پہلے کے لکھے ہوئے مختلف نکات کو یکجا کیا۔ اپنی کہانی اپنی زبانی اسی عرصے میں مکمل کی۔ خاص طور پر جب گھر سے باہر نکلنے پر پابندی تھی۔ مختلف علاقے سربمہر کیے جا رہے تھے۔ مسجدوں میں نماز سے بھی منع کیا گیا۔ ان دنوں میں لکھنے کے لیے زیادہ وقت میسر آیا۔ کوئی ملنے نہیں آتا تھا۔ فون بھی کم ہوتے تھے۔

جب ہندوستان تقسیم ہوا۔ تو میری عمر 7 سال تھی۔ انبالہ چھاؤنی سے مال گاڑی کے بغیر چھت کے ڈبے سے لاہور تک کا سفر ذہن میں نقش تھا۔ اب بھی ہے۔ ‘شام بخیر’ 1949 سے شروع ہوئی ہے۔ جیسی بھی ہماری تقدیر لکھی گئی ہے بہت ہی ہنگامہ خیز۔ معرکوں سے بھرپور جدوجہد ہے۔ اپنوں کی منافقت۔ ایک عظیم مملکت کے ساتھ حکمرانوں کی بے وفائیاں۔ جاگیروں۔ زمین داروں۔ سرداروں کی قبضہ گیریاں۔ تن آسانیاں۔ پھر ان کے ساتھ وردیوں والے بھی مل جاتے ہیں۔ 1954 سے یہ رفاقت۔ جس میں محبت کم۔ مخاصمت زیادہ ہے۔ ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا۔ لیکن اکثریت کے حقوق مل جل کر غصب کرنا۔ 2024 تک یہی ہوتا آ رہا ہے۔ آپ کے اور میرے محبوب ملک میں حکمرانوں نے ہر قسم کا تجربہ کیا ہے۔ گورنر جنرل۔ صدارتی نظام۔ مارشل لاء۔ پارلیمانی نظام۔ ملک توڑنا۔ بنگالیوں کو کم تر سمجھنا۔ پھر بلوچوں سے خوف کھانا۔ پشتون کو اپنی انا قربان کرنے پر مجبور کرنا۔ پنجابی کو ہر سازش میں ساتھ رکھنا۔ سندھی کو اپنے حقوق سے محروم رکھنا۔ مہاجروں پر کوٹہ سسٹم آزمانا۔

میں پاکستان کا ہم عمر ہوں۔ بلکہ سات سال بڑا بھی ہوں۔ ایک طرف تو اس مملکت میں یہ سہولت کہ راجپورے کا ایک غریب گھرانے کا عام سا بیٹا صرف پڑھنے لکھنے۔ اپنی ذہانت۔ اہلیت سے اردو کے سب سے بڑے اخبار کا گروپ ایڈیٹر بھی بن سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ کہ میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے۔ سفارش۔ رشوت۔ دباؤ۔ سفاکی کا دور دورہ ہے۔ عوامی راج کی بات کرنے والے قلعوں میں ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔ پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ جلا وطنی پر مجبور ہوتے ہیں۔

جو کچھ دیکھا سنا۔ محسوس کیا۔ وہ لکھتا رہا ہوں۔ لکھنے پر ہر قسم کی پابندیاں دیکھی ہیں۔ برداشت کی ہیں۔ پریس ایڈوائس۔ قبل از اشاعت سنسر۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ۔ جیل میں سی کلاس۔ بے روزگاری۔ خفیہ کا پیچھا۔

یہ سب کچھ پڑھیے۔ اپنی اصل تاریخ جانیے۔ ہو سکے تو اپنی رائے سے مجھے آگاہ بھی کیجیے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *