سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

کاش یہ موت ہمیں زندہ کر دے

محمود شام
13 جولائی ، 2025

آج اتوار ہے۔ بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسوں نواسیوں ،بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن۔ انکے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جواب دینے کے قیمتی لمحات۔ یہ ہفتہ وار رابطہ بہت ضروری ہے ورنہ رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں دوریاں بڑھنے لگتی ہیں۔ اولادیں اگر دور ہیں دوسرے شہروں اور ملکوں میں ہیں تو ان سے فون پر رابطہ روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں ایک بار ضرور رکھیں۔ اتوار کو ہی عصر کی نماز کے بعد محلے والوں سے ملیں ۔اپنے گھر پر بلا لیں یا کسی اور کے یا قریبی پارک میں ملیں۔ اپنے محلے کی مسجد میں بھی مل سکتے ہیں مسجد ایک کمیونٹی سینٹر ہے مسجد تاریخ اسلام میں ایوان صدر بھی رہی ہے، سپریم کورٹ بھی ،جی ایچ کیو بھی۔ مسجد ہی ہر اجتماعی فریضے کیلئے مرکز ہوتی تھی محلے والوں میں سے کوئی بیمار ہے کسی مسئلے سے دوچار ہے تو یہ محلے والوں ہی کی انسانی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کو خود حل کریں یا اس کے حل میں متعلقہ ہمسائے سے فعال تعاون کریں ۔

میں تو ایک عرصے سے اپنے اس کالم میں یہ دعوت دیتا آ رہا ہوں ۔کتنی دہائیوں سے دیکھ رہا ہوں کہ محلے داری دم توڑ رہی ہے۔ ملک میں اشرافیہ اور اعلیٰ طبقوں نے سماج کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ طبقاتی فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ زر اور زمین انسانی رشتوں پر سبقت حاصل کر گئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی مجبوریاں دور کرنے کے بجائے ان سے مالی فائدے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایک ریڑھی والے سے لے کر مل مالک تک، ایک چپراسی سے لے کر اعلیٰ سرکاری عہدے دار تک یہی دیکھا جاتا ہے کہ انکے پاس جو گاہک، سائل یا امیدوار آیا ہے اسکی کیا کمزوریاں ہیں اسے کتنا دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔

محلے داری عام گھروں میں بھی ہونی چاہیے لیکن فلک بوس عمارتوں فلیٹوں اپارٹمنٹوں میں اور زیادہ ضروری ہے۔ فلیٹ ایک دوسرے کی ہوا روکتےہیں ۔زمین سے رشتہ کمزور کرتے ہیں ۔چاند سورج نہیں دیکھنے دیتے۔ صبح کی پہلی کرن فلیٹ والوں نے بہت کم دیکھی ہے۔ سراسر غیر فطری ماحول ہے۔ زندگی سیڑھیوں لفٹوں اور بند کمروں میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں تو محلے داری ،خیالِ ہم نفساں لازمی ہو جاتا ہے ۔اکثر ایسی اونچی بلڈنگوں میں یونینیں بنی ہوئی ہیں انکے عہدے دار ہیں گارڈز ہیں۔ سب جیتے جاگتے انسان ہیں۔ سب ہم وطن ہیں ۔کچھ خاندان والے ہیں۔ کچھ کسی نہ کسی وجہ سے اکیلے رہنے پر مجبور ہیں۔ اسلئے یہاں ایک دوسرے کی خیال داری اور بھی ناگزیر ہے ۔ایسا معاشرہ جہاں جاگیرداروں، وڈیروں ،مافیاؤں کا غلبہ ہو عام انسان بہت کمزور ہو وہاں ان عام لوگوں کا آپس میں جڑے رہنا ہی محلوں اور شہروں کو مستحکم کر سکتا ہے ۔محلے داری ہوتی ،خیال ہم نفساں ہوتا تو کیا حمیرا اصغر کا اتنے مہینوں بعد پتہ چلتا کہ ایک متحرک فعال جوانی دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔والدین دوست ہم مشغلہ ہفتے میں کم از کم ایک بار رابطہ رکھتے تو ایک اشرف الخلق کا پیکر کیا ایسے مسخ شدہ اور ورق ورق ملتا ۔

یہ زرپرست معاشرہ جسے جان بوجھ کر اپنی الجھنوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ جنہیں ہم پبلک سرونٹ کہتے ہیں یعنی خادم عوام وہ سب فرعون بنے پھرتے ہیں ۔جن عوام کے ٹیکسوں کی بدولت بڑے بڑے دفتروں قیمتی گاڑیوں میں محافظوں کیساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اپنی سیکورٹی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ملک کے اصل مالکوں کی جان و مال کے تحفظ کیلئے کوئی یقینی سسٹم نہیں بناتے۔ انسان جو کائنات کا محفل و مرکزہے اللہ تعالیٰ کا اس زمین پر نائب ہے ۔وہ بسوں، ٹرکوں ،ٹینکروں، ڈالوں، قیمتی گاڑیوں، رکشوں کی بھیڑ میں ایک ذرہ بنتا جا رہا ہے کوئی اس کی نقل و حرکت میں آسانی کیلئے فکر مند نہیں ہے مجید امجد نے تو بہت پہلے کہا تھا!

میں جب ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

کیسی کربناک سچائی!

شو بز کی دنیا اور اب تو پورا معاشرہ ہی شو بز بن گیا ہے باہر بہت چکا چوند ہے کروڑوں اربوں کی باتیں ہیں مگر اندر بہت اندھیرے ہیں، بہت مفلسی ہے ،اخلاقی کنگال پن ہے ،بہت سفاک ہیں ڈرامے بنانے والے، بہت بے حس ہیں ہدایت کار، باہر بہت گلیمر ہے بھڑکتے رنگ ہیں لیکن اندر بہت گہرے سناٹے ہیں جنہیں اوڑھ کر نئے لڑکے لڑکیاں سونے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں۔ امریکہ یورپ کے معاشرے ان بے اعتنائیوں سے گزر کر پھر مشترکہ کنبوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ وہ زندگی میں آسانیاں لانے کیلئے تحقیق کرتے رہتے ہیں ۔مگر ہم ابھی بیسویں صدی کی درمیانی دہائیوں والے متضاد ماحول میں ہیں ۔فرد کی آزادی اور پرائیویسی ایک ایسے معاشرے میں حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں زندگی کے تحفظ کیلئے کوئی اجتماعی نظام نہیں ہے۔ پورے شہروں، بستیوں ،دیہات اور محلوں کو کوئی سیکورٹی نہیں مل رہی ہے ایک فرد کو یہ حفاظت کیسے ملے گی ۔معاشی مجبوریوں نے بھی دباؤ ڈالا ہے۔ پھر ہر ڈرامہ نو بیاہتا بہو کو اپنے شوہر پر الگ گھر لینے کی دہائی دیتا دکھائی دیتا ہے۔ اقدار کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ ہمارا دین متین اسلام تو اجتماعیت جامعیت ہمسائیگی اور میل جول پر زیادہ زور دیتا ہے ۔پانچ وقت کی نماز باجماعت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضری نہیں ایک دوسرے سے ملنے مزاج پوچھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے ۔

پرنٹ میڈیا، رسالے ،اخبار، کتابیں انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتےتھے۔ میڈیا ہاؤسز رپورٹرز،سب ایڈیٹرز ان کا سرکار سے معاشرے سے روزانہ رابطہ ہاکرز نیوز ایجنٹ پورا معاشرہ حرکت میں رہتا تھا۔ سوشل میڈیا صرف فرد تک محدود ہے۔ ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس سے گریز کیا جاتا ہے۔ سب کا آپس میں مقابلہ ہے۔ کوئی رفیق کار نہیں ۔فالورز ہزاروں لاکھوں لیکن کوئی غم گسار نہیں ۔آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ربط باہمی نہیں ہے کوئی دو تین روز جھلک نہ دکھائے تو اسے سب بھول جاتے ہیں پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ آخر کیا وجہ ہے ۔

نچلی سطح کے جمہوری سسٹم بلدیاتی نظام کو کمزور کر دیا گیا ہے ۔سہولتیں گھر کے نزدیک دستیاب نہیں ہوتیں ۔کونسلر اہل محلہ کی فکر رکھتے تھے۔ محلے کے بزرگ، نوجوان آپس میں جڑے رہتے تھے ۔

حمیرا اصغر تو کسمپرسی میں زندگی گزار کر چلی گئی۔ لیکن اس کی کرب انگیز موت نے سفاک معاشرے کو آئینہ دکھا دیا ہے ۔ہمارے رنگین دریچے کتنے کھوکھلے ہیں۔ بھڑکتے پیرہن کتنے پھیکے ہیں۔ چند سیکنڈ میں آگہی کا شور محض دھوکہ ہے۔ لاکھوں دلوں کی دھڑکن جیسے القاب خود فریبی ہیں ۔اس المیہ پر ہر پہلو سے تحقیق اور ایک مبسوط ڈاکومنٹری ضروری ہے تاکہ ہم اپنے پاکستانی سماج کی خامیاں اور کمزوریاں دور کر سکیں۔لاوارث بزرگوں کیلئے تو اولڈ ہوم کی بات کرتے ہیں۔ کیا اب اکیلے نوجوانوں کیلئے بھی ینگ ہومز بنائے جائیں ۔

کاش یہ موت ہمیں زندہ کر دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *