سوشل میڈیا اکاؤنٹس

محمود شام

محمود شام

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

پاکستان کو آگے لے جاتے لوگ

محمود شام

تاریخ کے اوراق نے ہمیں آغوش میں لے رکھا ہے
بانی پاکستان قائد اعظم کی بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے طویل جدوجہد قیمتی فریموں میں آویزاں ہے. قائد اعظم میوزیم ہاؤس فلیگ اسٹاف ہاؤس میں اسکولوں کی طالبات بیسویں صدی کی تحریک پاکستان کے مناظر دیکھنے آئی ہوئی ہیں۔ ان کے چہرے ایک والہانہ خوشی سے دمک رہے ہیں چاروں طرف قائد اعظم کی تاریخی تصاویر ہیں ۔ اگر یہ بااصول شخصیت نہ ہوتی تو ہمیں پاکستان جیسی جنت نہیں مل سکتی تھی ۔عالمی یوم سیاحت کے حوالے سے پاکستان کے ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن کے صدر نعیم شریف اور خواجہ جہاں زیب سردار زبیر حسین سندھ وزارت سیاحت کے سیکرٹری اور اعلی افسر بھی موجود ہیں۔سیاحت قدیم شوق ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک جدید ترین صنعت کا درجہ اختیار کر گیا ہے ۔پاکستان دنیا میں سیاحت کے محبوب ترین مقامات میں سے ہے ۔کوہ پیماؤں تاریخ کے شناوروں اور محققین سب کے لیے یہاں بیش بہا خزانے موجود ہیں۔ کہیں پانچ ہزار سال پہلے کی رقاصہ بلا رہی ہے۔ کہیں آٹھ ہزار سال پہلے کی گلیاں ۔صدیاں آپس میں مل رہی ہیں کھل کھلا رہی ہیں سسکیاں لے رہی ہیں۔ سیاحت قومی یکجہتی مضبوط معیشت خود کفیل پاکستان کے لیے ایک سرچشمہ بن سکتی ہے ۔
صوبائی وزیرسیاحت سید ذوالفقار علی شاہ سندھ کے نوجوان سیاست دانوں میں ایک سنجیدہ منظم اور پرعزم ہستی کے طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد سیاحت صوبائی اختیار میں آگیا ہے ۔اس لیے اب ہر صوبہ اس کے فروغ کے لیے دلچسپی لے رہا ہے ۔اگرچہ ابھی بجٹ بہت محدود ہے ۔شاہ لطیف کے راگی شفقت حسین نے روحانی ماحول تخلیق کر دیا ہے ۔امداد حسین ستار کا جادو جگا رہے ہیں ۔ حاضرین کی تعداد بڑھ گئی ہے کرسیاں کم پڑ گئی ہیں۔وزیر سیاحت کی تقریر کے بعد سوالات کا وقفہ طویل ہوتا جا رہا ہے ۔اچھا لگ رہا ہے کہ وزیر موصوف ہر سوال کا جواب تحمل سے دے رہے ہیں۔ زیادہ تر سوالات سیکیورٹی کے حوالے سے ہیں۔ سندھ کے سیاحتی مقامات پر مامور عملے کا رویہ بھی سوالات کا موضوع ہے۔ گورکھ ہل جسے سندھ کا مری کہا جاتا ہے اس کی بکنگ کے مسائل بھی زیر غور آرہے ہیں۔ سندھ سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کے ایم ڈی سید فیاض علی شاہ نے اس تقریب کو شایان شان انداز سے سجایا ہے۔ قائد اعظم کی روح یقینا خوش ہو رہی ہوگی کہ ان کے پاکستان کا ایک حسین رخ پیش کیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔”ابا جی کہا کرتے تھے کہ بیٹا ہم جو بھی ہیں پاکستان کی وجہ سے ہیں پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا ہے پاکستان نے ہی ہمیں تعلیم عزت اور مقام دیا ہے وہ کہتے تھے بیٹا ہمیشہ پاکستان کی قدر کرنا اس کی بہتری کے لیے کام کرنا محنت اور ہمت سے کام کرنا ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دینا پاکستان کے غریبوں کی مدد کرنا بے کسوں کے کام کرنا اپنی استطاعت سے بڑھ کر آفت زدوں اور ناداروں کی مدد کرنا اللہ تعالی ابا جی کو غریق رحمت کرے ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے وہ ہمارے لیے مصلح اور ریفارمر تھے”
یہ الفاظ ہیں ایک انتہائی فرض شناس ذمہ دار پاکستانی افسر اور ایک سعادت مند بیٹے ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے۔ان کی ایک ضخیم تصنیف “محتسب کی ڈائری” سے۔
ہم ڈاکٹر جمیل جالبی لائبریری کے نسیم شاہین آڈیٹوریم میں موجود ہیں۔ خوشی یوں ہو رہی ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی طالبات بڑی تعداد میں جمع ہیں پاکستان جس نسلی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ وہاں مختلف نسلوں کے درمیان رابطہ زیادہ متحرک ہونا ضروری ہے ۔صحافی “چشم اعتبار “کی مصنفہ اور علامہ اقبال گرلز کالج کی سابق پرنسپل نوشابہ صدیقی یہاں ہونے والی تقریبات میں خصوصی اہتمام یہ کرتی ہیں. یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو مدعو کیا جائے۔ ایک سعادت مند بیٹے ڈاکٹر خاور جمیل نے اپنے عظیم والد ڈاکٹر جمیل جالبی کی خدمات کو یاد رکھنے کے لیے جمیل جالبی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کراچی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری سے ملحقہ خالی پلاٹ میں جمیل جالبی لائبریری جدید طرز تعمیر کے مطابق استوار کی۔ جالبی صاحب کی تمام قیمتی کتابیں مخطوطات مسودےیہاں عام محققین کے لیے دستیاب ہیں۔ ” محتسب کی ڈائری “نیشنل بک فاؤنڈیشن نے بڑے سائز کےسات سو صفحات پر شائع کی ہے. پاکستان کی تاریخ کے مشکل ترین برسوں 2021 سے 2025 تک کے شب و روز کی داستان. ڈاکٹر اصف محمود جاہ ایم بی بی ایس ہیں کسٹم کی طویل سروس کے بعد ٹیکس محتسب کے فرائض پر مامور .لیکن اپنا علاج معالجہ ہر شہر میں ہر مقام پر مفت جاری رکھتے ہیں. اپنے دن کا اغاز جہاں بھی ہوں دفتر میں تلاوت کلام پاک سے کرتے ہیں پورا اسٹاف شریک ہوتا ہے آیات قرانی ترجمہ پھر تفسیر اور پھر اجتماعی دعا پاکستان کی بقا کے لیے خاص طور پر بے گناہ اسیران کی بریت اور رہائی کے لیے. محتسبوں کی مختلف ملکوں میں کانفرنسوں کا تذکرہ بھی ڈائری کا نمایاں حصہ ہے۔ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی صدر مجلس ہیں۔ سراج الدین عزیز بینکار مقرر ہیں کئی کتابوں کے مصنف دی نیوز میں ان کے ارٹیکل نئی نسل کی تربیت کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اصف محمود جاہ کا خطاب درد مندی اور انکسار کا مظہر ہے ۔
۔۔۔۔
بزرگی میں فرسودگی اپنی جگہ مگر بزرگی کی بدولت ہی آپ کو ایسے اجتماعات میں جانے کا موقع ملتا ہے ۔جہاں اس عظیم مملکت کے لیے درد بکھرتا ہے ڈاؤ میڈیکل کالج اب یونیورسٹی ملک کی ایک اہم درسگاہ ہے ۔جہاں طالب علموں نے اپنی تعلیم کے دوران بھی ملک کی ترقی کے لیے جدوجہد کی اور گریجویشن کے بعد بھی پاکستان اور بیرون پاکستان اپنی خدمات سے پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ۔ اب اپنی 40 سالہ یادیں دہرا رہے ہیں پہلے سلور جوبلی بھی منا چکے ہیں ۔1985 میں فارغ التحصیل ہونے والے دنیا بھر سے کراچی میں یکجا ہوئے. تین روز تقریبات جاری رہیں۔ رفتگان کو بھی یاد کیا گیا ۔میڈیکل سائنسز میں ہونے والی تیز رفتار پیشرفت پر بھی تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ ہم یہاں کیوں موجود تھے .ڈاکٹر فیاض شیخ جو اب برطانیہ میں ہوتے ہیں سر درد کے ماہر ہیں۔ عالمی ہیڈک ایسوسی ایشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی خود نوشت”” تہ گرد”” کی رونمائی بھی ان تقریبات کا حصہ تھی. یہ ایک عام پاکستانی طالب علم کی مشکلات اور بلند عزم کی داستان ہے .بہت سادہ الفاظ میں. کس طرح ایک پاکستانی نے انگریزوں سے مقابلہ کیا پھر انگریزوں کو پڑھاتے بھی رہے. 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان میں دائیں بائیں بازو کی کشمکش کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں .حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ مصنف کے ڈاکٹر رفقائے کار نے بڑی تعداد میں کتاب خریدی کیونکہ اس کی آمدنی انڈس ہسپتال کو عطیہ کی جا رہی تھی۔ ہسپتال کے بانی ڈاکٹر عبدالباری خان بھی 1985 کے گریجویٹ ہیں .ہم نے عرض کیا کہ 1985 سے ہی پاکستان کے زوال کی ابتدا ہوئی جو اب تک جاری ہے مگر
ایسی محفلیں ہمارا خون بڑھاتی ہیں ان سے یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *