قبل از اشاعت سنسر کا یہ عرصہ قابل ذکر ہے۔ سب بڑے بڑے میڈیا گروپ اس جبر کا سامنا کرتے رہے۔ میں ہفت روزہ ‘معیار’ اور ماہ نامہ ‘ٹوٹ بٹوٹ’ کی کاپیاں لے کر خود جاتا تھا۔ تو وہاں ‘جنگ’ کے بانی میر خلیل الرحمٰن کو بھی موجود پاتا۔ سارے بڑے انگریزی اور اردو اخبارات کو اپنے پورے صفحات انفارمیشن آفیسر کے حضور پیش کرنے پڑے تھے۔ یہ اس افسر کے اختیار میں تھا کہ وہ کس اداریے کو جانے دے کس خبر کو چھپنے کی اجازت دے۔ بڑے بڑے ایڈیٹر۔ کالم نویس۔ نیوز ایڈیٹر بے بس تھے۔ ابتدا میں تو جو خبر اتاری جاتی اس کی جگہ خالی رہنے دی جاتی۔ دو تین دن بعد یہ بھی حکم جاری کر دیا گیا کہ کچھ اضافی خبریں ساتھ لے کر آئیں تاکہ مسترد خبروں کی جگہ انہیں لگایا جا سکے۔ اور وہ بھی جانچ لی جائیں۔ (صفحہ 322)
- میراثِ تمدن صرف 31 اکتوبر تک - June 19, 2025
- قومی سیاسی پارٹیاں، کتنی سیاسی کتنی جمہوری - June 15, 2025
- پاکستان: انسان پر سرمایہ کاری کیوں نہیں - June 12, 2025