پنجابی کے صوفی شاعر
پاکستان میں صوفیا کا کلام ہمیشہ بہت محبت اور عقیدت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ پنجاب میں بابا فرید۔ سلطان باہو۔ بلھے شاہ۔ خواجہ فرید۔ محمد بخش ہر گھر میں لازمی موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے اردو پنجابی کے سینئر ایڈیٹر مصنف جناب تنویر ظہور سے درخواست کی کہ وہ ان معزز و مقبول ہستیوں کے کلام کی اشاعت کرنے والے اداروں کا ایک طائرانہ جائزہ قلمبند کریں۔ ’کتاب نمبر‘ اس خصوصی مضمون کے بغیر نامکمل رہتا۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ اپنی مصروفیات کے باوجود انہوں نے ’اطراف‘ کے لیے وقت نکالا اور یہ گرانقدر تحریر عنایت کی۔ وہ بڑی باقاعدگی سے پنجابی رسالہ ’سانجھاں‘ بھی شائع کررہے ہیں۔
محبت و مودت اور پیار انسانی فطرت کا اہم رکن ہے۔ اگر محبت کا جذبہ نہ ہو تو بچے کبھی پروان نہ چڑھیں۔ ربوبیت اور انسیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور تصوف ہی ایک ایسا مکتب ہے جو انسان کو تحریک دیتا ہے کہ اپنی محبت اور مودت کا مرکز اس ہستی کو بنایا جائے جسے نہ فنا ہے، نہ زوال ہے۔ جو قدیم الاحسان ہے اور وہی بے لوث مہربانی کرنے والی ہستی ہے جس کی رحمت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
پنجابی کے صوفی شاعروں نے محبت، مودت اور پیار کا درس دیا۔ ان صوفیا نے انسان کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے انسانوں کا اعتماد بحال کیا اور اسے آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ صوفی سالک کو چلتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ صوفی سالک کو متقی بناتا ہے۔ سالک کو خدا سے نہیں ڈراتا بلکہ اعمال کے نتائج سے آگاہ کرتا اور سمجھاتا ہے کہ گندم بیجنے سے گندم ہی حاصل ہوگی۔ پنجابی صوفی شاعروں پر کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ابتدا میں یہ کتابیں کشمیری بازار لاہور سے شائع ہوتی رہیں جو اخباری کاغذ پر بغیر جلد کے شائع ہوتی تھیں۔ جب پنجابی زبان کالجوں اور یونیورسٹیز میں پڑھائی جانے لگی تو بعض اداروں اور پبلشرز نے تزئین و آرائش کے ساتھ دیدہ زیب انداز میں شائع کیں۔ ان اداروں اور پبلشرز میں مکتبہ میری لائبریری (اردو بازار) مجلس شاہ حسین لاہور، تاج بک ڈپو (اردو بازار) پاکستان پنجابی ادبی بورڈ، پنجابی ادبی اکیڈمی (کچہری روڈ لاہور) میاں مولا بخش کشتہ اینڈ سنز ٹمپل روڈ لاہور، پیکجز لمیٹڈ لاہور، مکتبہ دانیال اردو بازار لاہور، پنجابی ادبی لہر، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ، لینگویج اینڈ لٹریچر، اکادمی ادبیات پاکستان (اسلام آباد)
عزیز بک ڈپو (اردو بازار لاہور) مسعود کھدرپوش ٹرسٹ لاہور، بزم مولا شاہ لاہور، سانجھاں پبلی کیشنز ، سانجھ پبلی کیشنز، (مزنگ لاہور) پنجند اکیڈمی، لہراں ادبی بورڈ، سنگ میل پبلی کیشنز ودیگر شامل ہیں۔
پنجابی کے پہلے صوفی شاعر بابا فرید گنج شکرؒ ہیں۔ ان کا بیشتر کلام سکھوں کی مقدس کتاب ’’گرنتھ‘‘ سے ملا ہے جو گورمکھی رسم الخط میں ہے۔
بابا فرید کا کلام (شلوک) اردو حروف میں جن شخصیات نے شائع کیا، جو مؤلف ہیں ان میں ڈاکٹر بچن سنگھ، پروفیسر جیت سنگھ سیتل، پروفیسر شریف کنجاہی، محمد افضل خان، جیشی رام، مشتاق چشتی، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اور محمد آصف خان شامل ہیں۔ کلام بابا فریدؒ کے بابا نانک کے ہاتھ لگ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گرنتھ میں درج ہو کر محفوظ ہوگیا۔ بعض اداروں اور پبلشرز نے پنجابی صوفی شاعروں کا کلام تزئین و آرائش اور دیدہ زیب انداز میں بڑے سائز میں شائع کیا۔ یعنی جس سائز میں علامہ اقبال کے شعری مجموعے شائع ہوئے۔
پیکجز لمیٹڈ لاہور اشاعتی ادارہ نہیں مگر اس ادارے نے پنجابی کے صوفی شاعروں کو عمدہ کاغذ اور خوبصورت انداز میں شائع کیا۔ مثلاً بابا فرید، شاہ حسین، سلطان باہو، بلھے شاہ کی کافیاں اور میاں محمد بخش کی سیف الملوک۔
یہ تمام کام ڈاکٹر سید نذیر احمد کی زیر نگرانی ہوا جو گورنمنٹ کالج لاہور کے ہر دلعزیز پرنسپل تھے۔ ڈاکٹر صاحب نامور ماہر تعلیم، محقق اور ماہر علم حیوانات تھے۔ اس کے علاوہ آپ پنجابی زبان و ادب کے محقق، مولف اور اسکالر تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد نے صوفی شعرا بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور سلطان باہو کے کلام کو تحقیق کے بعد مرتب کیا۔ پیکجز لمیٹڈ کے مالک سید بابر علی، ڈاکٹر نذیر صاحب کے شاگرد تھے۔ آپ 1985ء میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر صاحب پنجابی املا کا بہت خیال رکھتے تھے۔
کلام شاہ حسین کے پیش لفظ میں سید بابر علی نے لکھا ’’صوفی شاعروں کا کلام جس انداز سے شائع ہوا، دیکھ کر مایوسی ہوئی، یہ کتابیں اغلاط سے پر اور معمولی کاغذ پر چھپی ہوئی تھیں۔ ہمارے ادارے نے اس کو غیر تسلی بخش سمجھا اور ایک منصوبے کے تحت پنجابی کے صوفی شاعروں کے کلام کو جمع کرکے اغلاط سے پاک صورت میں شائع کرنے کا تہیہ کیا۔ اسے پنجابی صوفی شاعری کی ایک خدمت تسلیم کرتے ہوئے کیا گیا‘‘۔ ڈاکٹر نذیر احمد نے ’’تعارف میں لکھا :’’ہماری کتابوں کے سرورق اور متن کے حاشیوں اور زیبا کاری محمود حسن رومی صاحب کے فن اور کاوش کا اثر ہے جس نے کتابوں کو چار چاند لگادیئے۔ شکریے کا سب سے زیادہ حق دار پیکجز کا ادارہ ہے جس نے کتاب کی طباعت پر بے دریغ روپیہ خرچ کیا اور اس بات کا خیال رکھا کہ اس کی قیمت اعتدال سے بڑھنے نہ پائے‘‘۔
ڈاکٹر سید نذیر احمد صاحب کی وفات کے بعد سید سبط الحسن ضیغم نے بطور ایڈوائزر یہ ذمہ داری سنبھالی۔ ضیغم صاحب پنجابی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے۔ سبط الحسن ضیغم نے ’’سیف الملوک‘‘ کی تدوین کی اور 80 صفحات پر مبنی مقدمہ لکھا۔ پیکجز نے اس کتاب کو خوبصورت انداز میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ قصیدہ بردا شریف کے گیارہ ترجمے اکھٹے کرکے چھاپے۔ انہوں نے احمد گجر کی ’’ہیر‘‘ پر بھی کام کیا۔ ضیغم صاحب 19 نومبر 2010ء کو 78 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔
میاں محمد بخش کی تصنیف ’’سیف الملوک‘‘ بظاہر جنوں اور پریوں کے بارے میں ایک منظوم روحانی داستان ہے مگر ہم میاں صاحب کے کلام پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے تشبیہوں اور استعاروں کی زبان میں اسرار و رموز، فلسفہ حسن و عشق کے ان گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے جن تک کسی فلسفی کی نظر نہیں پہنچی۔ یہی وجہ ہے کہ پوٹھوار ، شمالی علاقے میں، جموں کشمیر میں شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں ’دسیف الملوک‘‘ کو برکت کے طور پر رکھا یا پڑھا نہ جاتا ہو۔ میاں محمد صاحب کی شاعری کا اصل موضوع عشق حقیقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں میاں صاحب کی اپنی تصویر کا عکس نظر آتا ہے۔ صاحب سیف الملوک چونکہ خود بھی کامل ولی کا مقام رکھتے تھے اس لیے ان کے اشعار میں ہر شخص کو اصل منزل کا منظر دکھائی دیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ ’’دھرو‘‘ ہیر وارث شاہ کے ساتھ ہوا۔ وارث شاہ پنجابی شاعری کا ایسا نام ہے جو ہر عہد میں یاد رکھا جائے گا۔وارث شاہ کی لازوال تخلیق ’’ہیر رانجھا‘‘ اپنے موضوع، فن اور اسلوب کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں وارث شاہ کی داستان ’’ہیر رانجھا‘‘ ایک نئے معنوی تناظر میں سامنے آئی۔ ہر دور میں اس کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ مختلف دانشوروں نے وارث شاہ کو شکسپیئر ، ورڈز ورتھ، کیٹس سے بڑا، پوشکن اور بودلیئر کا ہم پلہ، سخن کا وارث، مہا کوی، ولی اللہ، عارف بااللہ اور عظیم آرٹسٹ کے خطابات سے یاد کیا۔ کشمیری بازار والے ’’اصلی تے وڈی ہیر‘‘ شائع کرتے رہے یعنی اس میں مولوی ہدایت اللہ کے شعروں کو شامل کرکے چھاپتے رہے۔ چنانچہ گوجرانوالہ کے محقق زاہد اقبال کو کتاب شائع کرنا پڑی جس میں انہوں نے ’’ہیر وارث شاہ‘‘ میں ملاوٹی شعروں کی نشاندہی کی۔ محمد شریف صابر شاعر، محقق، مولف، مترجم، نقاد اور ماہر تعلیم تھے۔ انہوں نے ہیر وارث شاہ مرتب کی جو 1986ء میں وارث شاہ میموریل کمیٹی محکمہ اطلاعات ثقافت حکومت پنجاب نے شائع کی۔ اس کتاب کے آخر میں بندوار فرہنگ بھی شامل ہے۔
شریف صابر صاحب نے ’’تعارف‘‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ نسخہ مستند اور تحقیقی کاوش ہے جس کا مقصد بڑی حد تک شیخ عبدالعزیز مرحوم کے کام کو آگے بڑھانا ہے۔
اب میں شیخ عبدالعزیز کا ذکر کروں گا۔ ان کی مرتب کردہ ’’ہیر وارث شاہ‘‘ پنجاب یونیورسٹی کے ایم اے (پنجابی) کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کتاب کو عزیز بک ڈپو (اردو بازار لاہور) نے شائع کیا۔ ایم اے پنجابی کے نصاب میں لکھا ہے۔ ہیر وارث شاہ مرتب شیخ عبدالعزیز (فحش اشعار خارج)ایک روز میں اورینٹل کالج (پنجاب یونیورسٹی) شعبہ پنجابی گیا اور وہاں پڑھائی جانے والی شیخ عبدالعزیز کی مرتب کردہ ’’ہیر وارث شاہ‘‘ دیکھی۔ بعض صفحات پر شعر مکمل شائع نہیں کیے گئے اور جگہ خالی چھوڑ دی گئی۔ پتا چلا یہاں فحش اشعار تھے جنہیں سنسر کیا گیا۔ یہ دیکھ کر مجھے جنرل ضیاء الحق کا دور یاد آگیا کہ ان کے دور میں علامہ اقبال کے اشعار بھی سنسر کیے جاتے تھے۔ شریف صابر کی مرتب کردہ ’’ہیر‘‘ میں یہ مصرعہ چھپا ہے:
ایہ قرآن مجید دے معنے نیں جیڑے شعر میءں وارث شاہ دے نیں
اگر وارث شاہ کے شعر قرآن مجید کے معنے ہیں تو فحاشی کیسے آگئی؟ استاد دامن کہا کرتے تھے کہ مجھے وارث شاہ کا یہ مصرع بہت پسند ہے:
وارث رن فقیر تلوار گھوڑا ، چارے تھوک ایہ کسے دے یار ناہیں
محمد شریف صابر کی مرتب کردہ اس ’’ہیر وارث شاہ‘‘ کے شروع میں وارث شاہ، وارث شاہ کا مزار، جنڈیالہ شیرخاں، حجرہ وارث شاہ، حجرہ حافظ غلام مرتضیٰ (قصور)، مسجد مکہ ہانس، وارث شاہ کا گھر (جنڈیالہ شیر خاں) مرقد چوچک، تخت ہزارہ، نور شاہ گیٹ (قدیم جھنگ) رنگ پور کھیڑیاں جدید اور کوٹ قبولہ کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ شائع ہونے اور پڑھی جانے والی کتاب ’’ہیر وارث شاہ‘‘ ہے۔ وارث شاہ کے علاوہ بھی کئی شاعروں نے ہیر رانجھا کی داستان کو منظوم کیا مگر جو مقبولیت وارث شاہ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور شاعر کو حاصل نہ ہوسکی۔ استاد دامن نے بھی ’’ہیر‘‘ لکھی۔ میں نے استاد دامن سے دریافت کیا تھا کہ وارث شاہ کے بعد آپ کو ’’ہیر‘‘ لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ استا دامن کا کہنا تھا ’’ہیر رانجھے کے قصے پر جتنی کتابیں لکھی گئیں، ان میں رانجھے کے کردار کو ایک خواجہ سرا کے روپ میں پیش کیا گیا۔ میں نے جو ’’ہیر‘‘ لکھی ہے اس میں رانجھےکے کردار کے مردانہ وصف کو اجاگر کیا ہے۔
استاد دامن کہا کرتے تھے کہ ’’ہیر وارث شاہ ورگی کتاب میری نظرتوں نہیں لنگھی۔ ایس وچ فلسفہ، ڈرامہ، سوال تے جواب دا جو انداز اے اوہ ہور کسے کتاب وچ نئیں ملدا‘‘ استاد دامن کے شعری مجموعے ’’دامن دے موتی‘‘ میں ’’دامن دی ہیر‘‘ بھی شامل ہے۔ اس کتاب کو فیروز سنز نے شائع کیا۔ استاد دامن کے پاس استاد تہورا سنگھ سے لے کر مولا بخش کشتہ تک 32 کتابیں ’’ہیر‘‘ کے قصے پر موجود تھیں۔ محمد آصف خان پنجابی کے محقق، نقاد، افسانہ نگار، ایڈیٹر اور استاد تھے۔ آپ 17 مارچ 2000ء میں عید الاضحی کے روز وفات پاگئے۔
آصف خان نے جنگ ہند پنجاب، آکھیا بابا فرید نے، ہیر دمودر، کافیاں شاہ حسین، آکھیا بلھے شاہ نے، آکھیا خواجہ فرید نے، آکھیا میاں محمد نے‘‘ کو مرتب کیا اور دیدہ زیب انداز میں بڑے سائز میں پاکستان پنجابی ادبی بورڈ لاہور کے زیر اہتمام شائع کیا۔
راجا رسالو بھی پنجابی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے۔ یہ 29 ستمبر 2007ء میں دنیا میں اپنے قیام کی مدت پوری کرگئے۔ انہوں نے بزم باہو اور مجلس شاہ حسین بنائی۔ مجلس شاہ حسین کے چیئرمین رائے منصب علی خاں تھے جو ازاں بعد۔ ایم این اے اور وزیر مملکت رہے۔ مجلس شاہ حسین میں شفقت تنویر مرزا بھی اہم عہدے پر فائز تھے۔ مجلس نے ’’کافیاں شاہ حسین‘‘ اہتمام سے شائع کی۔ اس کے علاوہ مشتاق صوفی کی پنجابی شاعری کی کتاب بھی مجلس شاہ حسین نے شائع کی۔ وارث شاہ پر کتابوں کے علاوہ فلمیں بھی بنیں۔ عنایت حسین بھٹی نے فلم ’’وارث شاہ‘‘ بنائی اور وارث شاہ کا کردار خود ادا کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی مگر بھٹی صاحب اس فلم پر آخر دم تک مان کرتے رہے۔ عنایت حسین بھٹی نے 1991ء میں صوفیاء کرام، ان کی درگاہوں اور تعلیمات کے حوالے سے پی ٹی وی پر پروگرام پیش کیے۔ نام تھا ’’چانن ری چانن‘‘ اس کے بعد نام ’’اجالا‘‘ رکھ دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ’’تجلّیوں‘‘ کے نام سے پروگرام چلتا رہا۔ وارث شاہ کے قصے پر فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ بھی بنی جس کے گیت احمد راہی نے لکھے۔ یہ فلم مقبول ہوئی۔ میں یہاں معروف لوک گائیک اور شاعر شوکت علی کا ذکر کروں گا۔ شوکت علی نے میاں محمد بخش کے کلام ’’سیف الملوک‘‘ کی دھن بنائی جو آج دنیا بھر میں رائج ہے۔ میاں محمد بخش کا کلام انہوں نے ’’بھیرویں‘‘ میں آسان فہم کرکے گایا۔ صوفیا کرام کی شاعری کو انہوں نے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں آخر دم تک پنجابی کے صوفی شاعروں کا کلام گاتا رہوں گا۔ میری دعا ہے کہ ساری دنیا صوفی شاعروں کے پیغام امن، محبت اور پیار سے رہے۔‘‘
پنجابی فوک ادب کے حوالے سے ارشاد احمد پنجابی کا کام بھی اہم ہے۔ انہوں نے ایم اے (فارسی) کیا مگر تمام زندگی پنجابی لوک ادب کی ترقی و ترویج کے لیے وقف کردی۔ ارشاد احمد پنجابی کی کتابیں پنجابی نامہ، پنجابی نعت، پنجاب کا مرد، پنجاب کی عورت، لوک لوریاں، بلھے شاہ کی سوچ شائع ہوئیں۔ ان کی کتابیں بعض سرکاری اداروں نے شائع کیں لیکن ان کا اپنا ادارہ ’’پنجابی ادبی لہر‘‘ تھا۔ اس ادارے کے تحت بھی کتابیں شائع ہوئیں۔ ارشاد احمد پنجابی 20 ستمبر 1993ء میں وفات پاگئے۔
بھاٹی اور موری دروازے کے درمیان جلال دین وقف اسپتال ہے۔ ہسپتال کے باہر دکانیں ہیں جن میں ایک دکان کا نام مکتبہ دانیال (شیخ بشیر اینڈ سنز) ہے۔ اس مکتبہ کے مالک محمد ابو بکر صدیق ہیں۔ مکتبہ دانیال نے صوفی شاعروں بلھے شاہ، وارث شاہ، بابا فرید، خواجہ غلام فرید، شاہ حسین کی کتابیں اردو ترجمہ اور شرح کے ساتھ شائع کیں۔ مجلد اور بلا جلد۔
ان کے علاوہ مرزا صاحباں اور سوہنی مہینوال کی داستانیں بھی ترجمے اور شرح کے ساتھ شائع کیں۔ ان کتابوں کے مترجم وشارح ہیں، ڈاکٹر میاں ظفر مقبول، حمید اللہ شاہ ہاشمی اور محمد اقبال محمد۔
صوفی شاعر شاہ حسین کے بارے میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ ایک کتاب ’’حقیقت الفقرا‘‘ ہے جسے شیخ محمود المعروف محمد پیر نے لکھا۔ اس کا اردو ترجمہ مفتی عزیز الدین، نجم الدین تاجران کتب لاہور نے شائع کیا۔
مکمل کلام شاہ حسین لاہوری کے نام سے ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے کتاب مرتب کی۔ یہ کتاب 1942ء میں شائع ہوئی۔ 1966ء میں مجلس شاہ حسین نے اس کتاب کو دوبارہ شائع کیا۔شفقت تنویر مرزا نے کافیاں شاہ حسین مرتب کی اور ساتھ اردو ترجمہ ۔ یہ کتاب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف اینڈ کلچر نے شائع کی’’صحیح تے مکمل کافیاں شاہ حسین‘‘ یہ کتاب قیام پاکستان کے بعد چوہدری محمد افضل خان نے ایڈٹ کرکے چھاپی۔
عبدالمجید بھٹی نے شاہ حسین کی کافیوں کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ یہ کتاب 1961ء میں شائع ہوئی۔
پنجابی کے آخری صوفی شاعر خواجہ غلام فرید ہیں۔ ان پر محمد آصف خان نے کام کیا اور ’’آکھیا خواجہ فریدؒ نے ‘‘ کے نام سے کتاب مرتب کی جو پاکستان پنجابی ادبی بورڈ نے دیدہ زیب انداز میں شائع کی۔ پہلا ایڈیشن 1994ء میں شائع ہوا۔ 560 صفحات پر مبنی بڑے سائز میں، ہر صفحے پر خوبصورت حاشیوں کے ساتھ چھپی اور قیمت صرف 250 روپے رکھی گئی۔
کتاب کا ’’پوکھو‘‘ یعنی تعارف 28 صفحات پر محمد آصف خان نے لکھا۔ کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنی دیئے گئے ہیں۔ محمد آصف خان نے کتاب کے شروع میں لکھا ہے ’’عام طور پر خواجہ غلام فرید کے کلام کو ’’کافیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس نے بھی لفظ ’’کافی‘‘ استعمال کیا ہے۔ مولوی عزیز الرحمن نے اپنی مرتب کردہ کتاب کا نام ’’کافیاں خواجہ فرید‘‘ کے بجائے ’’دیوان فرید‘‘ رکھا۔ اصل میں خواجہ فرید کے کلام میں کافیوں کے علاوہ غزلیں اور نظمیں بھی شامل ہیں۔ پنجابی کے صوفی اور کلاسیکی شاعروں کے کلام پر مشتمل مختلف اداروں نے اب تک جتنی کتابیں شائع کی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان کا مکمل احاطہ ممکن نہیں۔ اس کو آپ اشاریہ سمجھ لیں۔