پی پی پی کے 50سال
پی پی پی نے نومبر 2017 سے گولڈن جوبلی تقریبات کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں کسی قومی سیاسی پارٹی کے مسلسل سیاسی سفر اور عوامی جدوجہد کی نصف صدی اہم واقعہ ہے۔ ’اطراف‘ نے نومبر 2016 سے پی پی پی کے 50 سال کی سرگزشت کی اشاعت کا آغاز کیا۔ پی پی پی کے سینئر رہنما اقبال یوسف سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ حقائق بیان کریں۔ اس بار ان کے سلسلۂ مضامین کی تیرہویں قسط آپ کی نذر ہے۔ آپ بھی چاہیں تو اظہار خیال کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں اپیل مسترد ہونے کے بعد جناب بھٹو کے وکلاء جناب یحییٰ بختیار اور جناب غلام علی میمن نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں جناب بھٹو سے ملاقات کی اور شام کو بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی کو بتایا کہ مسٹر بھٹو رحم کی اپیل نہیں کریں گے لیکن ہم نظرثانی کی اپیل کرنا چاہتے ہیں۔ 8 فروری کو بیگم نصرت بھٹو اور دونوں وکلاء جناب یحییٰ بختیار اور غلام علی میمن نے جیل میں جناب بھٹو سے ملاقات کی دوسری طرف دنیا بھر کے رہنماؤں اور اہم شخصیات کی جانب سے جناب بھٹو کی سزا ختم کرنے کی اپیلیں آنی شروع ہوگئیں، 60 سے زائد ممالک کے سربراہوں ، 100 سے زائد اہم شخصیات، دانشوروں اور عالمی مفکرین نے جنرل ضیاء سے جناب بھٹو کی سزا منسوخ کرنے کی اپیلیں کیں۔ ملک بھر کی جیلیں پارٹی کارکنوں، عہدیداروں، رہنماؤں اور دیگر ترقی پسند سیاسی کارکنوں، محنت کشوں اور ان کے لیڈروں سے بھری ہوئی تھیں اور پیپلز پارٹی کے جو سرکردہ رہنما ’’آزاد‘‘ تھے وہ کارکنوں کو تسلی دے رہے تھے کہ ’’جنرل ضیاء دنیا کے اہم ممالک کی اپیلوں کو نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘۔ 13 فروری کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی گئی اور 14 فروری کو عدالت نے نظرثانی کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔
21 فروری کو مولانا مفتی محمود، میاں طفیل محمد اور نوابزادہ نصراللہ خان نے جنرل ضیاء سے ملاقات کی اس ملاقات میں چاروں صوبوں کے گورنر جنرل فیض علی چشتی اور جنرل کے۔ایم۔ عارف بھی موجود تھے۔ واضح رہے کہ یہ لوگ جناب بھٹو کی سزا کی معافی کے لیے نہیں ملے تھے لیکن اس ملاقات کی خبر کو ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں میں ’’اہم خبر‘‘ کے طور پر نشر کیا گیا کہ ’’ان رہنماؤں نے ملک کو درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال کیا‘‘ یہ رہنما 21 فروری کو بھی دوسری بار جنرل ضیاء سے ملے تھے۔ 23 فروری کو نظرثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی اور 28 فروری کو ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔ بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے قریب سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظربند کردیا گیا تھا۔
جنرل ضیاء کی حکمت عملی یہ تھی کہ ’’غیر یقینی‘‘ صورتحال برقرار رکھی جائے تاکہ کوئی بڑی مزاحمتی تحریک منظم نہ ہوسکے کراچی میں بیگم بھٹو کی خالہ زاد بہن بیگم فخری گلزار، بیگم اشرف عباسی، بیگم گوہر اعجاز، بیگم رقیہ سومرو اہم شخصیات سے جناب بھٹو کے لیے ملاقاتیں کررہی تھیں 9 مارچ کو جناب بھٹو کے وکیل جناب غلام علی میمن حرکت قلب ہونے سے اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔
جناب یحییٰ بختیار نے 17 مارچ کو دلائل مکمل کرلیے اور اُسی روز سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ 20 مارچ کو جناب بھٹو نے جیل میں بھوک ہڑتال شروع کردی۔ 23 مارچ کو جنرل ضیاء نے اعلان کیا کہ انتخابات اسی سال 17 نومبر کو ہوں گے۔ 24 مارچ کو اسلام آباد کے سپریم کورٹ نے نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں اشارہ دیا کہ ’’حکام سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘
یعنی یہ آس برقرار رکھی کہ سزا پر عمل درآمد نہ ہونے کی گنجائش ہے 25 مارچ کو اسلام آباد کے ’’جتوئی ہاؤس‘‘ میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ’’آزاد‘‘ رہنماؤں کا اجلاس جناب یٰسین وٹو کی صدارت میں ہوا (یٰسین وٹو بعد میں ضیاء کی کابینہ میں وزیر ہوگئے تھے) اس اجلاس میں حنیف خان، غلام مصطفی جتوئی، سید علی اصغر ، مولانا احترام الحق تھانوی اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی، باہر سینکڑوں کارکن جمع تھے اور اندر اپیل ہورہی تھی ’’پیارے چیئرمین بھوک ہڑتال ختم کردیں۔‘‘
26 مارچ کو بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہاؤس سے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی لایا گیا جہاں دونوں خواتین کی ملاقات جناب بھٹو سے 2گھنٹے تک جاری رہی۔ بی بی سی کا نمائندہ مارک ٹیلی جیل حکام کے حوالے سے خبر دے رہا تھا کہ جیل حکام کو جناب بھٹو اور دیگر چار ملزمان کے بلیک وارنٹ موصول ہوچکے ہیں اور عبدالحفیظ پیرزادہ یہ بیان کر رہے تھے کہ جنرل ضیاء کے ایما پر انہوں نے رحم کی اپیل کردی ہے، اُن کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء نے اُن کو کہا ہے کہ تم رحم کی اپیل کیوں نہیں کرتے کہ آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے وہ جان بخش دیں۔ 31 مارچ کو بڑی بیگم صاحبہ امیر بیگم اُن کے بھانجے مظفر مصطفی، طارق اسلام اور مس بے نظیر بھٹو نے جناب بھٹو سے ملاقات کی۔ یکم اپریل کو جناب بھٹو کی ہمشیرہ بیگم شیربانو امتیاز نے اپنے بھائی کے لیے رحم کی اپیل کی۔ 3 اپریل کو بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو نے آخری ملاقات کی۔ 3 اور 4 اپریل کی درمیانی شب جناب بھٹو کا عدالتی قتل کردیا گیا۔ 5 جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہونے والا عظیم شخص اپنی زندگی کے 51 ویں سال کی عمر میں راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل سے تاریخ میں امر ہوگیا۔ ذرا تصور کیجیے کہ تختہ دار سے چند سو گز کے فاصلے پر بھٹو شہید کی بیوی اور جواں سال بیٹی سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند تھیں لیکن دونوں خواتین بیوی اور بیٹی کو آخری دیدار نہیں کرایا گیا اس ظلم اور سفاکی پر حکومت اور عدالت کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے۔ بھٹو شہید کی میت کو صبح سات بجے ایک سی 130 طیارے میں پہلے جیکب آباد لایا گیا جہاں سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے گڑھی خدا بخش پہنچایا گیا جہاں فوجی حکام نے ان کی آبائی قبرستان میں پہلے سے قبر تیار کرلی تھی گڑھی خدا بخش کی مسجد کے پیش امام محمود احمد نے نماز جنازہ پڑھائی اور 4 اپریل 1979ء کی صبح دس بجے پاکستان کے منتخب وزیراعظم اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین، تیسری دنیا کے لیڈر اور پاکستان کے غریبوں، محنت کشوں، طالب علموں، ہاریوں، کسانوں اور مظلوم عوام کے قائد کو سپرد خاک کردیا گیا لیکن وہ زندہ رہا وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
جناب بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ 5 اپریل 1979ء ملک بھر میں پارٹی کارکن اور مظلوم عوام سڑکوں پر نکل آئے شہروں اور دیہات میں مظاہرے ہوئے بے شمار گرفتاریاں ہوئیں، ہر شخص دل گرفتہ تھا 6 اپریل 1979ء کو بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو کو ایک خصوصی طیارے میں راولپنڈی سے لاڑکانہ لایا گیا انہوں نے قبر پر حاضری دی فاتحہ پڑھی اور اُسی روز شام کو دونوں خواتین کو واپس راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔
11 مئی 1979ء کو ملک بھر میں بھٹو شہید کے چہلم کے موقع پر تمام تر پابندیوں کے باوجود ملک بھر میں قرآن خوانی اور خصوصی اجتماعات منعقد ہوئے اور گڑھی خدا بخش میں مرکزی اجتماع ، قرآن خوانی اور جلسۂ عام منعقد ہوا فوجی حکومت نے چہلم میں عوام کی شرکت کو روکنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے، گڑھی خدا بخش جانے والے راستوں پر رکاوٹیں لگادیں اور پولیس و فوج کے دستے تعینات کردیئے۔ سکھر، خیر پور، جیکب آباد، شکار پور سے لاڑکانہ آنے والے راستے بند کردیئے اور آنے والے قافلوں کو ہراساں کیا گیا مگر تمام تر اقدامات کے باوجود حکام ناکام رہے اور مظلوم عوام شہید قائد عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے پہنچ گئے ۔ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے عوام کا یہ تاریخی اجتماع ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی تاریخ کا آغاز بن گیا۔ استحصالی قوتوں کے نمائندوں، سندھ کے وڈیروں، پنجاب کے جاگیرداروں کا وہ ٹولہ جو یہ طے کرچکا تھا کہ بھٹو کے بعد وہ لیڈر ہوں گے عوام کے جذبات دیکھ کر ڈرائنگ روم کی سیاست تک محدود ہوگئے۔ 28 مئی 1979ء کو بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو کو رہا کردیا گیا ، دونوں خواتین اُسی شام کراچی پہنچ گئیں اور 29 مئی سے عوام کی بڑی تعداد تعزیت کے لیے 70 کلفٹن آنے لگی جہاں مس بے نظیر بھٹو تعزیت کرنے والوں سے ملاقات کرتیں کیونکہ بیگم صاحبہ عدت میں تھیں تو صرف خواتین ان سے ملاقات کرتی تھیں بھٹو کی شہادت کے عظیم سانحے کے باوجود دونوں خواتین کے حوصلے بلند تھے وہ بے خوف ہو کر قاتلوں کو پیغام دے رہی تھیں کہ ہم بھٹو کا مشن پورا کریں گے عوام کو پیغام دے رہی تھیں ہمارا راستہ بھی وہی راستہ ہے جو بھٹو کا راستہ ہے عوام کا راستہ ہے۔ ماہِ جون 79ء کی ابتداء میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں بیگم نصرت بھٹو کی چیئرمین شپ پر مکمل اعتماد کا اظہار کرکے ضیاء آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کا عزم کیا گیا۔
بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو کو ضیاء حکومت کے خلاف پہلی کامیابی اس وقت ملی کہ 25 جون 1979ء کو غلام اسحاق خان نے بجٹ پیش کیا تو سیمنٹ، پیٹرول، بناسپتی گھی، گیس، مٹی کا تیل اور مشروبات پر اربوں روپے کے ٹیکس لگائے جس سے ان تمام بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بجٹ کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے 5 جولائی کو ’’یوم سیاہ‘‘ منانے کا اعلان کیا اور ملک بھر میں مظاہروں اور ہڑتال کی اپیل کی۔ پورے ملک اور آزاد کشمیر میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے عوام نے بھرپور شرکت کی، تمام تعلیمی ادارے تجارتی مرکز، صنعتی ادارے بند رہے شہری زندگی معطل رہی احتجاج کا یہ سلسلہ آگے بڑھا اور 27 جولائی کو جنرل ضیاء نے کئی اشیاء پر لگائے گئے نئے ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کردیا، یہ عوامی طاقت کی کامیابی تھی، یوم آزادی 14 اگست کو بیگم بھٹو کی عدت پوری ہوئی، جنرل ضیاء 17 نومبر 1979ء کو انتخابات کرانے کا اعلان کرچکا تھا لیکن فرار کے راستے تلاش کررہا تھا، اُس نے ایک بیان میں کہا کہ آئندہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوں گے پھر کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو رجسٹریشن کرانی ہوگی پھر کہا بلدیاتی انتخابات پہلے ہوں گے یہ ساری قلابازیاں انتخاب ملتوی کرنے کے لیے تھیں۔ 30 اگست کو اپنی نشری تقریر میں ضیاء الحق نے عام انتخابات سے پہلے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا اور سیاسی جماعتوں پر رجسٹریشن کرانے کی پابندی کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی اس پابندی کو مسترد کرچکی تھی اب قومی اتحاد سمیت دیگر جماعتوں نے بھی رجسٹریشن کی پابندی کی مخالفت کی، دوسری طرف بلدیاتی انتخابات کا پروگرام جاری کردیا گیا، کیونکہ یہ انتخابات ’’غیر سیاسی غیر جماعتی‘‘ قرار دیئے گئے تھے اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کے لیے ’’عوام دوست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور 25 ستمبر کو 1979ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اگرچہ ان انتخابات کو ’’غیر سیاسی غیر جماعتی‘‘ کہا جارہا تھا لیکن تمام سیاسی جماعتوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا اور سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے ’’عوام دوست‘‘ امیدواروں کی بھاری تعداد کامیاب ہوئی انہی انتخابات میں کراچی میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی عوام دوست عبدالخالق اللہ والا کے مقابلے میں میئر منتخب ہوئے تو ڈپٹی میئر عوام دوست امیدوار عمر یوسف ڈیڈا منتخب ہوئے، عوام دوست عبدالخالق اللہ والا کو صرف دو ووٹوں سے شکست ہوئی جس میں ایک ووٹ بیگم گوہر اعجاز کا تھا جن کو میئر کراچی کے انتخابات سے صرف ایک دن پہلے مارشل لاء 12 کے تحت نظر بند کردیا گیا تھا دوسرا وہ تھا جو میئر کے انتخاب میں عبدالستار افغانی کو ڈالا گیا اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں عمر یوسف ڈیڈا ’’عوام دوست‘‘ کو ڈالا گیا۔ اسی طرح لاڑکانہ، جیکب آباد، نواب شاہ، خیر پور، شکار پور، سکھر سمیت سندھ کے بیشتر علاقوں میں ’’عوام دوست‘‘ کامیاب ہوئے۔ پنجاب میں بھیصورتحال یہی تھی ، بلدیاتی انتخابات کے نتائج فوجی حکمرانوں کے لیے پریشان کن تھے۔
ستمبر کے آخری ہفتے میں 17 نومبر کے انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا۔ سیاسی جماعتوں نے اس کی تیاری شروع کردی، امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرنے شروع کیے تو کوئٹہ کے دورے کے دوران جنرل ضیاء نے کہا کہ ’’قرآن مجید میں 17 نومبر کی تاریخ درج نہیں ہے‘‘ اور یہی ہوا، رجسٹریشن نہ کرانے والی تمام جماعتوں پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد سمیت تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے جن میں بے نظیر بھٹو، یحییٰ بختیار، مولانا مفتی محمود، سردار عبدالقیوم بھی شامل تھے جبکہ جماعت اسلامی نے قومی اتحاد سے علیحدہ ہو کر رجسٹرڈ جماعت کی حیثیت سے کاغذات جمع کرائے تھے چنانچہ 5 اکتوبر 1979ء کو جماعت اسلامی کو قومی اتحاد سے نکال دیا گیا اور 16 اکتوبر 1979ء کو جنرل ضیاء نے 17 نومبر کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا انتخابات کے التوا کے ساتھ ہی 17 نومبر کو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا جن میں بیگم نصرت بھٹو ، مس بے نظیر بھٹو، سردار فاروق لغاری، ایئر مارشل اصغر خان، مولانا مفتی محمود سمیت ماسوائے جماعت اسلامی کے کئی رہنما شامل تھے۔ ملک بھر میں 100 سے زائد فوجی عدالتیں قائم کردی گئی تھیں، ہڑتالوں، مظاہروں، جلسوں جلوس پر پابندی کو سخت کردیا گیا اور فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے عمل کو تیز کردیا گیا، کئی اخبارات اور جرائد پر پابندی لگادی گئی اور ’’اخبارات پر سنسر‘‘ لگادیا گیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل ضیاء نے مارشل لاء پر مارشل لاء لگادیا۔
نومبر 79ء میں بلدیاتی اداروں کے عہدیداروں کے انتخابات مکمل ہوگئے میئر، ڈپٹی میئر، ڈسٹرکٹ کونسلوں اور یونین کونسلوں کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین جو کہ ’’غیر سیاسی اور غیر جماعتی‘‘ بنیاد پر منتخب ہوئے تھے ان میں سے 70فیصد جنرل ضیا کی ’’بی ٹیم‘‘ بن گئے شہری اور دیہی علاقوں میں بلدیاتی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
1980ء کا آغاز سوویت یونین کی افغانستان میں براہ راست مداخلت کے ساتھ ہوا۔ افغانستان میں صدر داؤد کا تختہ اُلٹ کر وہاں پہلے ببرک کارمل اور پھر نور محمد ترہ کئی برسر اقتدار آئے، افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد سے پاکستان کے لیے بھی مشکل صورتحال پیدا ہوئی اور ان حالات میں امریکہ نے پاکستان کو روس کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں، شہید بھٹو نے ان خطرات کا اظہار جیل سے تحریر کردہ اُس طویل خط میں کردیا تھا جو ’’میری سب سے پیاری بیٹی کے نام‘‘ سے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے یہ خط جون 1978ء میں شہید بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے نام تحریر کیا تھا۔ افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد نے امریکہ و برطانیہ کے لیے جنرل ضیاء الحق کو اہم کردیا اور یہی صورتحال جنرل ضیاء کے اقتدار کی طوالت کا اہم سبب بنی اور پاکستان کو روس کے خلاف درحقیقت امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا گیا جس میں ہم آج تک سلگ رہے ہیں۔
12 اپریل 1980ء کو چھ ماہ کی طویل نظر بندی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو رہا ہوئیں، دونوں خواتین کی رہائی عدالت کے حکم پر ہوئی تھی چنانچہ مارشل لاء پر مارشل لاء کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے 27 مئی 1980ء کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے ہائی کورٹوں کے اختیارات کو محدود کردیا گیا اور اعلیٰ عدالتوں کو مارشل لاء ریگولیشن یا کسی بھی مارشل لاء آرڈر کے تحت کیے گئے کسی بھی اقدام کو جو کیا جاچکا ہو یا کیا جائے گا یا مارشل لاء حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی ہو مارشل لاء کورٹ سے دی گئی سزاؤں پر نظرثانی نہیں کرسکتی اور عدالتوں کے اختیارات کا خاتمہ موثر بہ ماضی ہوگا اس حکم میں یہ اعلان کیا گیا کہ 1977ء ملک میں فوجی حکومت اور اقتدار پر قبضہ قانون کے مطابق ہے تمام مارشل لاء آرڈر اور احکامات اس میں شامل ہیں۔ اگست 80ء میں مس بے نظیر بھٹو کو لاہور ایئرپورٹ سے واپس کراچی بھیج دیا گیا اور ان کی پنجاب میں داخلے پر پابندی لگادی گئی۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر کارکن اپنی سزائیں مکمل کرکے رہا ہو رہے تھے، سیاسی سرگرمیاں معدوم تھیں۔ اکتوبر 1990ء میں جنرل ضیاء کے خلاف مشترک جدوجہد کے لیے دیگر سیاسی قوتوں کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کو پیغام ملا لیکن 14 اکتوبر 1980ء کو مولانا مفتی محمود کے انتقال کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ التواء میں چلا گیا، پیپلز پارٹی کے رہنما جناب پیار علی الانا اور نوابزادہ نصراللہ خاں کے نمائندے انور عباس نقوی، جناب فتحیاب علی، معراج محمد خان کی بیگم نصرت بھٹو سے ملاقاتیں جاری رہیں ۔ اس دوران وہ تمام بڑے سیاستدان جو بھٹو شہید کے مخالف تھے ایک ایک کرکے بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے لیے 70 کلفٹن آتے رہے۔ مولانا مفتی محمود کے انتقال کے بعد مولانا فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ ہوئے اور 70 کلفٹن آئے۔ خواجہ خیر الدین کونسل مسلم لیگ کے سربراہ تھے نواب زادہ نصراللہ خان پی ڈی پی کے صدر تھے، سردار فاروق لغاری اور پیار علی الانا مشاورتی اجلاسوں میں پی پی پی کی نمائندگی کرتے تھے اور بالآخر 6 فروری 1981ء کو ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد MRD (MOVEMENT FOR THE RESTOTARION OF DEMOCRACY) کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ اس اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، آزاد جموں کشمیر و مسلم کانفرنس، پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، قومی محاذ آزادی، پاکستان مزدور کسان پارٹی، نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی اور تحریک استقلال شامل تھیں۔ ایم آر ڈی کے قیام نے جنرل ضیاء کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایم آر ڈی کے بنیادی مطالبات میں جنرل ضیاء الحق کا استعفیٰ، مارشل لاء کا خاتمہ، تمام سیاسی اسیروں کی رہائی، مارشل لاء کے تحت فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں کی منسوخی شامل تھی اس کے لیے جلسوں، مظاہروں کے پروگرام کا اعلان بھی کیا گیا اور رضاکارانہ گرفتاریوں کا پروگرام بھی شامل تھا۔ 26 فروری کو بیگم نصرت بھٹو کو لاہور سے حراست میں لے کر کراچی پہنچا دیا گیا جبکہ مس بے نظیر بھٹو پر پنجاب میں داخلے پر پابندی تھی ایم آر ڈی کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا مگر تحریک شروع ہوچکی تھی۔ 23 مارچ کو لاہور میں بڑے جلسۂ عام اور مظاہرے کا پروگرام تھا کہ بدقسمتی سے 2 مارچ 1981ء کو کراچی سے پشاور جانے والا پی آئی اے PIA کا طیارہ اغواء کرکے کابل پہنچا دیا گیا جس میں 146 مسافر سوار تھے ہائی جیکروں نے پہلے پانچ سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، حکومت کے انکار پر وہ کابل سے ایندھن بھروا کر طیارہ دمشق لے گئے اور پھر 55 سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کردیا، ہائی جیکروں نے ایک مسافر میجر طارق رحیم کو گولی مار کر اُن کی لاش طیارے سے باہرپھینک دی تھی (اس واقعے کی تفصیل کتاب میں تفصیل کے ساتھ شامل ہے) بہر کیف 14 دن کے طویل مذاکرات کے بعد 55 سیاسی قیدیوں کو جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا یا وہ پیپلز پارٹی کے ہمدرد تھے رہا کرکے دمشق بھیج دیا گیا۔ درحقیقت طیارہ اغواء کا یہ کیس تحریک بحالی جمہوریت کے خلاف ایک سازش تھی جس میں ’’نادان دوست‘‘ غیر شعوری طور پر ملوث ہوگئے اور اس کو جواز بنا کر ضیاء حکومت نے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرلیا اور کراچی میں ہائی جیکروں سے رابطوں اور اعانت کے جرم میں فوجی عدالت نے 3 افراد ناصر بلوچ، سیف اللہ خالد اور ملک ایوب کو موت کی سزا سنائی جبکہ صرف ناصر بلوچ شہید جو کہ پاکستان اسٹیل کے محنت کش رہنما تھے ملیر کے رہائشی تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن تھے کو پھانسی دی گئی، ملک ایوب جو کہ ملک غلام سرور اعوان (P.P.I) کے صاحبزادے تھے اور سیف اللہ خالد کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔
جنرل ضیاء کی حکومت کی سازش کے مطابق طیارے کے اغواء کو MRD اور پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا گیا محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی سکھر سینٹرل جیل میں پانچ ماہ جون جولائی کی سخت گرمیوں میں قید رکھا گیا مجھے بھی کراچی سے گرفتار کرکے پہلے سکھر جیل میں پھر کراچی لاکر تین ہفتے تک پولیس ٹریننگ کیمپ میں نظر بند رکھا گیا جہاں پرویز علی شاہ پیار علی الانا، حنیف بلوچ اور ارشاد راؤ بھی نظر بند تھے۔ بیگم نصرت بھٹو اور مس بے نظیر صرف عالم اسلام کی نہیں بلکہ دنیا کی وہ منفرد خواتین ہیں جن کو 5 جولائی 1977ء سے 18 دسمبر 1987ء کے دوران بیگم نصرت بھٹو کو 12 مرتبہ اور بے نظیر بھٹو کو 16 مرتبہ نظر بندی کے احکامات کے تحت قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ بیگم نصرت بھٹو کو کراچی سینٹرل جیل میں بھی بند اور گھروں پر بھی نظر بند رکھا گیا جبکہ مس بے نظیر بھٹو کو کراچی اور سکھر کی سینٹرل جیلوں میں قید رکھا گیا۔ 20 نومبر 1982ء کو بیگم نصرت بھٹو کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ بیگم نصرت بھٹو کے ڈاکٹروں نے اگست 1982ء میں مارشل لاء حکام کو کہا تھا کہ بیگم صاحبہ کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے لیکن ضیاء حکومت ٹال مٹول کرتی رہی اور بالآخر 11 نومبر میڈیکل بورڈ نے متفقہ طور پر فیصلہ کرکے حکومت کو آگاہ کیا اور بیگم نصرت بھٹو اپنی بیٹی صنم بھٹو کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہوگئیں۔ 70 کلفٹن کو سب جیل قرار دے کر مس بے نظیر بھٹو کو وہاں نظر بند رکھا گیا۔ ملک میں تحریک بحالئ جمہوریت جاری تھی، بیشتر قائدین اور سینکڑوں سیاسی کارکن جیلوں میں تھے۔ 5 جولائی 1983ء کو MRD کے تحت ’’یوم سیاہ‘‘ منایا گیا تو مزید سینکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ MRD نے 14 اگست 1983ء سے تحریک کو منظم کرکے جلسے جلوس اور گرفتاریاں دینے کے پروگرام کا اعلان کردیا۔ خان عبدالغفار خان نے جو اپنی طویل خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آچکے تھے 11 اگست کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں 14 اگست کو MRD تحریک کے خلاف بیان جاری کیا اور کہا کہ عوام ضیاء حکومت کے خلاف کسی تحریک میں شامل نہ ہوں۔ NDP کے جنرل سیکریٹری غلام احمد بلور نے MRD کی کنوینر شپ سے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ ’’باچا خان کے فیصلے کے بعد ہم اس قابل نہیں رہے کہ MRD کی طرف سے تحریک چلا سکیں لیکن MRD کی طرف سے پروگرام برقرار رہا اور پورے سندھ پنجاب کے شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو بیگم صاحبہ کی بیرون ملک روانگی کے بعد پارٹی کی شریک چیئرپرسن کے فرائض بھی انجام دے رہی تھیں نظر بندی کے باوجود پارٹی کارکنوں کے نام خفیہ خطوط کے ذریعے MRD کی تحریک کو تیز کرنے کی ہدایت ارسال کی تھیں۔ 15 اگست 1983ء کو جناب غلام مصطفی جتوئی نے ریگل چوک کراچی سے گرفتاری دی ان کے ساتھ معراج محمد خان، علاؤ الدین عباسی اور متعدد افراد نے گرفتاری دی جس کے بعد سندھ کے کئی وڈیرے بھی تحریک میں سرگرم ہوگئے۔ تحریک کا زور نواب شاہ، دادو، لاڑکانہ میں زبردست رہا۔ دادو سے پیر مظہر الحق، سید عبداللہ شاہ، منظور وسان سمیت سینکڑوں کارکن گرفتار جبکہ نواب شاہ سے غلام مرتضیٰ جتوئی، ہالہ سے مخدوم خلیق الزمان، مخدوم رفیق الزماں، جیکب آباد سے میر ہزار خان بجارانی بھی سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ ضیاء دور کے دوسرے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے پنجاب اور سندھ میں 28 ستمبر کو بلدیاتی انتخابات جبکہ ستمبر کے اوائل میں سرحد اور بلوچستان میں انتخابات ہوچکے تھے۔ بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے MRD تحریک میں التواء آیا اور نومبر 1983ء میں تحریک سرد پڑ گئی، اس تحریک میں اندرونِ سندھ کے عوام نے اہم کردار ادا کیا اور بے مثال قربانیاں دیں لیکن صورتحال وہی تھی کہ تمام بڑے وڈیرے اپنے بنگلوں، ریسٹ ہاؤس میں سرکار کے مہمان تھے جبکہ کارکن اور مڈل کلاس سیاسی قیادت جیلوں میں تھی۔ 28 ستمبر کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ’’عوام دوست‘‘ امیدوار بھاری تعداد میں کامیاب ہوئے کراچی میں بھی صورتحال یہ رہی کہ عبدالستار افغانی دوبارہ میئر منتخب ہوئے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے عوام دوست عبدالخالق اللہ والا ڈپٹی میئر 7 نومبر 1983ء کو منتخب ہوئے جبکہ بلدیہ حیدر آباد کے میئر احد یوسف JUP کی حمایت سے اور بشیر چانڈیو عوام دوست ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ 10 جنوری 1984ء کو مارشل لاء حکومت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو رہا کرکے بیرون ملک روانہ کردیا اور بتایا گیا کہ ڈاکٹروں نے ان کی کان کی تکلیف کے علاج کے لیے انہیں فوری طور بیرون ملک علاج کے لیے بھیجنے کی تجویز دی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جو مارچ 1981ء سے مسلسل 33 ماہ سے نظر بند تھیں اس کے باوجود تحریک بحالئ جمہوریت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے حوصلہ اور توانائی کا سبب تھیں اور عالمی سیاست میں ان کی اہمیت بڑھ رہی تھی۔ جنرل ضیاء بیرون ملک جہاں جاتا تو بے نظیر بھٹو کے بارے میں عالمی قیادت اور پریس کو جواب نہ دے پاتا چنانچہ حکومت نے اُن کو اس طرح جلا وطن کرنے کا منصوبہ بنایا بے نظیر بھٹو کو نیا پاسپورٹ جاری کیا گیا، نظر بندی کے احکامات واپس لیے اور اسی روز جینوا روانہ کردیا۔ جہاں سے وہ لندن پہنچ گئیں جہاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور متعدد جلا وطن رہنماؤں اور کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔
پاکستان میں فوجی آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات جاری تھے ، 9 فروری 1984ء کو ملک بھر میں طلبہ تنظیموں پر مارشل لاء کے تحت پابندی عائد کردی گئی، یہ پاکستان کی ہر دور کی نئی نسل کے لیے ایک بہت بڑا ظلم تھا جس کے بدترین نتائج ملک میں لسانی، گروہی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی صورت میں بتدریج سامنے آئے اور طلبہ تنظیموں کی غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے ابھرنے والی قیادت کی تعمیر کا سلسلہ آہست آہستہ ختم ہوگیا اور اب لیڈر وہ ہے جس کے ساتھ دس بارہ گارڈ ہوں، بڑی گاڑی ہو اور اس کے سر پر لسانی، فرقہ وارانہ تنظیم یا ’’نامعلوم‘‘ قوتوں کا ہاتھ ہو۔ آج پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ آپ کے یہاں مرکز، صوبے اور شہروں میں قیادت کا فقدان ہے، دیہات اور گاؤں گوٹھوں میں وڈیرہ جاگیردار اور سرمایہ دار مافیا ہر دو طرح کی بیورو کریسی سے سازباز کے ساتھ اصل حاکم ہے، انصاف دینے والے اب خود اپنے لیے انصاف مانگ رہے ہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں، ہر طبقہ میں عوام ’’مافیا‘‘ کے یرغمالی ہیں اگر طلبہ تنظیموں پر مارشل لاء نہ لگتا تو غیر نصابی سرگرمیوں اور مکالمے کے ماحول میں صحت مند اور فکر انگیز قابل قیادت درجہ بدرجہ ابھرتی رہتی، بدقسمتی سے سماجی تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں (NGO’s) کا کردار بھی پیشہ ورانہ اور کاروباری ہو کر رہ گیا ہے اور ہمارے خلاف بیرونی دشمن اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اب نئی صورتحال میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے درسگاہوں پر نئی پابندیاں مزید تباہی کی طرف لے جائیں گی۔بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی سطح پر جو قیادت ابھر کر سامنے آئی تھیں جنرل ضیاء نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بلدیاتی قیادت کو مراعات دے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اور ’’اسلام‘‘ کے نام پر ایسی اصلاحات کا آغاز کیا جن کی وجہ سے فرقہ واریت اور تعصبات کو ہوا ملی جو بے چینی اور انتشار کا سبب بنی۔ ’’مرد مومن‘‘ بننے کے لیے جنرل ضیاء کے اقدامات پر مختلف مسالک کے فقہا کو شدید تحفظات تھے ، دسمبر 1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے ’’ریفرنڈم‘‘ کرانے کا اعلان کیا اس سے قبل اگست 1984ء تا نومبر 1984ء کے دوران تقریباً تمام بڑے سیاسی قائدین اور سیاسی کارکنوں اور اسیر طلبا رہنماؤں اور طالب علموں کو رہا کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی جنرل ضیاء نے یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ ’’آئندہ انتخابات شراکتِ اقتدار کے لیے ہوں گے انتقال اقتدار کے لیے نہیں ہوں گے‘‘ ساتھ ہی مارشل لاء کا حکم جاری کردیا کہ ریفرنڈم کی مخالفت کرنا بائیکاٹ کرنا بھی جرم ہوگا۔ 19 دسمبر 1984ء کو یہ عجیب و غریب ریفرنڈم ہوا جس کا عوام نے از خود بائیکاٹ کیا پولنگ اسٹیشنوں پر سناٹا تھا۔
اس ریفرنڈم کے دوسرے دن جنرل ضیاء آئندہ پانچ سال کے لیے خود ہی ’’منتخب صدر بن گیا‘‘ اس سے قبل بھی 1980ء میں دلچسپ صورتحال سامنے آئی تھی کہ جنرل ضیاء کی ’’چیف آف آرمی اسٹاف‘‘ کے عہدے کی مدت پوری ہونے پر ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن اس طرح جاری ہوا:
’’میں محمد ضیاء الحق صدرِ پاکستان، مسلح افواج کے چیف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق کی مدت ملازمت میں آئندہ چار سال کے لیے توسیع کرتا ہوں‘‘
ریفرنڈم کے فوراً بعد جنرل ضیاء نے 12 جنوری کو غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن کرانے کا اعلان کردیا اور کہا کہ 25 فروری 1985ء کو قومی اسمبلی اور 28 فروری کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 200 سے بڑھ کر 237 کردی جبکہ سینیٹ کی نشستوں کی تعداد 83 کردی گئی اس اعلان کے بعد لندن میں پارٹی کی ہائی کمان کا اجلاس ہوا پھر پاکستان میں جنوری 1985ء میں ایبٹ آباد میں MRD کی تمام جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں ایم آر ڈی نے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ پگارا، مسلم لیگ کنونشن سمیت کئی جماعتوں کے افراد نے حصہ لیا۔ MRD میں شامل جماعتوں کے بھی کئی منحرف افراد نے ان انتخابات میں حصہ لیا ، جلسےجلوس اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی تھی ہر اُمیدوار کا انتخابی نشان الگ تھا ان غیر جماعتی انتخابات نے بھی فرقہ واریت، لسانیت، گروہی تعصبات کو فروغ دیا، مقامی اثر رسوخ برادری قبیلہ اور سرمائے کے بے دریغ استعمال سے وجود میں آنے والی قومی اسمبلی نے استحصالی قوتوں کو اور مضبوط بنا دیا۔ 2 مارچ 1985ء کو جنرل ضیاء نے نمایاں ترمیمات کے ساتھ آئین بحال کردیا۔
5 مارچ کو ناصر بلوچ کو کراچی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی جبکہ تمام تر شواہد ثابت کرتے تھے ناصر بلوچ کسی طرح بھی طیارے کے اغواء میں ملوث نہیں تھا، ناصر بلوچ شہید نے بہادری کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما اور مارشل لاء مردہ باد اور جیئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے شہادت کا مرتبہ پایا۔ ناصر بلوچ کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور تدفین کے فوراً بعد مارشل لاء حکام نے جنازے کے شرکاء پر لاٹھی چارج اور آنسوگیس کی شیلنگ کی۔
جنرل ضیاء نے پیر پگاڑا کی مشاورت سے سانگھڑ سے بلا مقابلہ منتخب ہونے والے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا اور 23 مارچ 1985ء کو اُن سے حلف لیا اور خود بھی ’’منتخب صدر‘‘ کا حلف اٹھایا ۔ محمد خان جونیجو نے اپنے پہلے نشری خطاب میں کہا کہ ’’مارشل لاء اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی‘‘۔ جنرل ضیاء کے لیے یہ صورتحال مشکل تھی لیکن جنرل ضیاء نے مارشل لاء اٹھانے کے لیے قومی اسمبلی سے آئین میں کی گئی تمام ترمیمات اور جنرل ضیاء کے تمام اقدامات کی توثیق کے بعد مارشل لاء اٹھانے کا عندیہ دے دیا ، 18 اکتوبر 1985ء کو غیر جماعتی اسمبلی نے ’’آٹھویں ترمیم‘‘ منظور کرکے اپنے پروانہ قتل کا اختیار بھی جنرل ضیاء کو سونپ دیا۔ 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیا۔
اس سے قبل 26 جون 1985ء ایاز سموں کو پھانسی دی گئی جس پر ظہور الحسن بھوپالی کے قتل کا الزام تھا یہ نوجوان بھی بے گناہ تھا جو مارشل لاء عدالتوں کے بے رحمانہ طریقہ انصاف پر قتل ہوا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان پر ایک سانحہ 18 جولائی 1985ء کو گزرا کہ جب 17 جولائی 1985ء بیگم نصرت، بھٹو بے نظیر بھٹو ، صنم ناصر، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو فرانس کے ایک شہر میں ایک طویل عرصے کے اکھٹے ہوئے تھے تو یہ پرمسرت لمحات اگلے دن بے پناہ غم میں بدل گئے۔ دوسرے دن شاہنواز بھٹو اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ موت انتہائی پراسرار تھی ان کی عمر 27 سال تھی ستمبر 1977ء میں جناب بھٹو کی آخری گرفتاری کے بعد بھٹو کی ہدایت پر وہ تعلیم مکمل کرنے لندن چلے گئے تھے جہاں وہ بھٹو شہید کی رہائی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنے بڑے بھائی مرتضیٰ اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کررہے تھے جناب بھٹو کی شہادت کے بعد وہ افغانستان چلے گئے جہاں دونوں بھائیوں نے ایک افغان وزارت خارجہ کے ایک افسر کی دو بیٹیوں ریحانہ اور فوزیہ سے شادی کرلی دونوں کے یہاں ایک ایک بیٹی کی ولادت ہوئی، مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی کا نام فاطمہ اور شاہنواز بھٹو کی بیٹی کا نام سسی رکھا گیا۔ 1983ء میں شاہنواز فرانس منتقل ہوگئے اور 18 جولائی 1985ء کو وہ اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے فرانسیسی حکام نے شاہنواز بھٹو کی لاش کو اپنی تحویل میں لے لیا اور کئی مراحل سے گزر کر 20 اگست 1985ء کو لاش ورثاء کے حوالے کی گئی ، مس بے نظیر بھٹو اپنے جواں سال بھائی کی لاش لے کر 21 اگست کو پاکستان پہنچیں اور گڑھی خدا بخش میں بھٹو شہید کی قبر کے قریب اُن کی تدفین ہوئی، حکومت کی تمام تر پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں کارکن نماز جنازہ اور سوئم میں شریک ہوئے، پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے وہ تمام ارکان جو اسیری سے رہائی پاچکے تھے لاڑکانہ میں موجود تھے جن میں سردار فاروق لغاری، افتخار جیلانی، مخدوم امین فہیم، خالد خان، این ڈی خان، سید قائم علی شاہ، غلام مصطفی جتوئی، غیاث الدین جانباز، ملک معراج، خالد شیخ، رفیق احمد، ڈاکٹر اشرف عباسی، جہانگیر بدر، اسلم گرداسپوری، ملک حاکمین، مختار اعوان، میاں احسان الحق، میر ہزار خاں، نسیم حیدر، بیگم عابدہ ملک جبکہ سرحد بلوچستان اور سندھ کے رہنماؤں میں فیصل صالح حیات ، صفدر سعید مرزا، عبدالقادر شاہین، ڈاکٹر اسرار شاہ، افضل سندھ، ملک الطاف کھوکھر، بیگم نادرہ خاکوانی، محترمہ ریحانہ سرور، آصفہ فاروقی، سندھ سے عبدالرزاق سومرو، ایاز سومرو، چاکر جونیجو، احمد علی سومرو، مولا بخش چانڈیو، سید خادم علی شاہ، منظور وسان، پیر مظہر الحق، رحیم بخش جمالی، آفتاب شعبان میرانی، عبدالحمید خانزاد، نجم الدین سریوال، مخدوم شفیق الزماں، پیر تقی شاہ، صدیق کھرل، سید عنایت علی شاہ، حسین شاہ بخاری، علی نواز شاہ، عبدالستاربچانی، جام معشوق علی، محمد صدیق کھوسو، ظفر لغاری، صوبہ سرحد سے محمد حنیف خان، مسعود کوثر، بلوچستان سے امان اللہ گچکی، خالد خان محمد خان باردزئی، جاوید احمد جبکہ سندھ بھر کے اضلاع کی قیادت موجود تھی کراچی سے ایس ایم عمر، نسیم حیدر، عبدالرحیم بلوچ، رضا ربانی، اکرام رانا، نور الہدیٰ، محمد بخش لاشاری، مولانا احترام الحق تھانوی، حاجی شفیع جاموٹ، سید چاؤلہ کمال، اظفر منور سہروردی، حسین شاہ راشدی، چاچا سلیمان، عاقل لودھی، حمید قریشی، کراچی کی خواتین قیادت بیگم شمیم این ڈی خان، نصیبہ بیگم، رقیہ سومرو، منیرہ شاکر، تاج بی بی بلوچ، آمنہ ناگوری، فریدہ خانم اور ہزاروں کارکن و رہنما شہید بھٹو کی بیٹی سے تعزیت کے لیے موجود تھے۔
بے نظیر بھٹو شاہنواز بھٹو کے سوئم کے بعد27 اگست کو کراچی پہنچیں تو 29 اگست 1985ء کو انہیں 70 کلفٹن میں 90 دن کے لیے نظر بند کردیا گیا جبکہ دو دن قبل غوث علی شاہ جو کہ وزیراعلیٰ سندھ تھے نے بیان میں کہا تھا کہ ’’بے نظیر بھٹو آزاد ہیں اور جہاں جانا چاہیں جاسکتی ہیں‘‘۔ حکومت نے ایسا کیوں کیا؟ اُن دنوں ایم آر ڈی کی کنوینر شپ ہر تین ماہ بعد تبدیل ہو کر دوسری پارٹی کے پاس چلی جاتی تھی، اس بار پیپلز پارٹی کی باری تھی اور محترمہ بے نظیر 25 اگست 1985ء سے تین ماہ کے لیے ایم آر ڈی کی کنوینر بھی بن گئی تھیں اور حکومت کو یہ خوف تھا کہ بے نظیر بھٹو ایم آر ڈی کو متحرک کریں گی اور شاہنواز کی تدفین پر حکومت پیپلز پارٹی کی قوت بھی دیکھ چکی تھی پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن کی ذمہ داری بھی بے نظیر بھٹو کے پاس تھی۔ شاہنواز بھٹو کے چہلم کے موقع پر بھی لاڑکانہ میں بہت بڑا اجتماع ہوا ۔ اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی رہائی کے لیے کراچی میں جلۂ عام کے لیے MRD نے سرگرمی شروع کی تو جلسہ جلوس پر پابندی لگادی گئی اس کے باوجود 21 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ ہوا لیکن جلسہ کے اختتام پر گرفتاریاں شروع ہوگئیں، غلام مصطفی جتوئی، خواجہ خیر الدین فتحیاب علی خان، نفیس صدیقی، مشتاق مرزا سمیت کئی رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے، 3 نومبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو فرانس روانہ کردیا گیا۔
غیر جماعتی انتخابات کے بعد اسمبلیاں وجود میں آچکی تھیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں کام کررہی تھیں، صوبائی اسمبلیوں سے مارشل لاء کے خاتمے کے لیے قرارداد میں منظور ہورہی تھیں بالآخر دسمبر 1985ء کو جنرل ضیاء نے مارشل لاء کے خاتمے کا اعلان کردیا لیکن وہ آئین میں ایسی ترامیم کرچکا تھا کہ ادارے صرف ربر اسٹیمپ تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے برطانیہ واپس پہنچ کر نئی حکمت عملی اختیار کی انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا پھر وہ روس گئیں اور پھر انہوں نے سعودی عرب کے دورے اور عمرے کی ادائیگی کے بعد لندن واپس پہنچ کر پاکستان واپسی کا اشارہ دے دیا۔ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو سرگرم ہونے کی ہدایت کردی۔
پاکستان میں مارشل لاء کے خاتمے کے بعد فوجی عدالتیں ختم ہوچکی تھیں، مارشل لاء کے دفاتر بند کردیئے گئے، سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں چنانچہ مسلم لیگ نے بھی اپنے نئے سربراہ کا انتخاب کیا اور محمد خان جونیجو مسلم لیگ کے صدر بن گئے جبکہ غوث علی شاہ سندھ کے اور نواز شریف پنجاب مسلم لیگ کے صدر ہوئے دونوں وزرائے اعلیٰ بھی تھے اس لیے ہر دو صوبوں میں ارکان اسمبلی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے غیر جماعتی اسمبلیوں کو سیاسی ڈوپٹہ اوڑھا دیا گیا۔ وفاقی کابینہ میں 35 وزرا تھے، جن میں یوسف رضا گیلانی، یٰسین وٹو وغیرہ بھی شامل تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن سے پیپلز پارٹی سندھ کی تنظیم نو کا اعلان کیا یکم مارچ 1986ء کو سندھ کا صدر جناب غلام مصطفی جتوئی جنرل سیکریٹری شفیع محمدی اور ڈپٹی جنرل سیکریٹری کیلئے سید پرویز علی نامزد کیئے گئے۔ سیکریٹری اطلاعات امیر حیدر کاظمی اور خازن آفتاب شعبان میرانی اور این ڈی خان کو کراچی صدر ڈویژن کا مقرر کردیاگیا۔ جتوئی صاحب کو اس تنظیم پر تحفظات تھے وہ لندن میں مقیم تھے انہوں نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا اور اپنی کراچی آمد پر ایک بڑے استقبال کی منصوبہ بندی کی، ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران وہ اور اُن کے صاحبزادگان نے سرگرم کردار ادا کیا تھا، وہ متبادل یا مرکزی لیڈر کی حیثیت حاصل کرنے کے خواہشمند تھے چنانچہ اُن کی کراچی آمد پر ایک بڑے استقبالی جلوس کی تیاری کی گئی اس وقت بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا تھا اس لیے پارٹی کو متحرک اور فعال کرنے اور پارٹی کارکنوں کو ’’وارم اَپ‘‘ کرنے کا موقع تھا۔ 21 مارچ 1986ء کو جناب غلام مصطفی جتوئی کی کراچی آمد پر بڑا استقبال ہوا، جلوس جب شاہراہ فیصل پہنچا تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا نعرہ تھا
جتوئی کی شان ہے بھٹو کا احسان ہے
اور
بھٹو فیملی ہیرو ہیرو۔۔۔ باقی سب زیرو زیرو
ان نعروں کی گونج میں غلام مصطفی جتوئی کا جلوس جاری تھا جلوس میں سوائے بھٹو فیملی کیلئے مس بے نظیر بھٹو کیلئے نعروں کے علاوہ کوئی نعرہ جتوئی کی پذیرائی کے لیے نہیں لگ رہا تھا جس پر جتوئی صاحب اور ان کے رفقاء سخت پریشان تھے اس جلوس نے مزار قائداعظم تک جانا تھا لیکن اچانک جلوس کو ڈیفنس کی طرف موڑ دیا گیا اور جتوئی صاحب چلے گئے اور ایک نئی صورتحال کا آغاز ہوگیا۔ 28 مارچ 1986ء کو مس بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کے لیے 10 اپریل کی تاریخ کا اعلان کردیا، پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ 2 اپریل کو لندن سے اعلان کیا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا پہلا استقبال لاہور میں ہوگا جو پاکستان کا دل ہے۔ لاہور میں 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی جہاں 20 سال پہلے لاہور کے عوام نے ایوب آمریت سے بغاوت کرکے آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم الشان استقبال کرکے جنرل ایوب کی حکومت پر کاری ضرب لگائی تھی، اب ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی آمر جنرل ضیاء کی حکومت کے تمام مظالم، سختیوں، پابندیوں کا دوبارہ مقابلہ کرنے کے لیے لاہور سے ہی نئی جدوجہد کا آغاز کرنے آرہی تھی وقت نے ثابت کیا کہ بے نظیر بھٹو اور پارٹی قیادت نے ان کی وطن واپسی کے لیے لاہور کا درست انتخاب کیا تھا۔
10 اپریل 1986ء کو لاہور شہر کی ہر گلی و بازار میں پیپلز پارٹی کے پرچم لہرا رہے تھے، 19 اپریل کی رات سے ہی لاہور پارٹی کے نغموں اور نعروں سے گونج رہا تھا نوجوان سڑکوں پر دیوانہ وار رقص کر رہے تھے، 10 اپریل کی صبح 7 بجے سعودی عرب سے آنے والے طیارے نے لاہور کے رن وے کو چھوا تو جیئے بھٹو ایئر پورٹ گونج اٹھا، ویلکم ویلکم بے نظیر ویلکم، بھٹو کی تصویر بے نظیر، پاکستان کی تقدیر، نصرت و بے نظیر کے نعروں کی گونج میں ڈیڑھ گھنٹے کے بعد مس بے نظیر بھٹو ٹرک میں سوار ایئر پورٹ سے باہر آئیں تو تالیوں کی گونج اور فلک شگاف نعروں سے شہر راوی کے عوام نے بے نظیر بھٹو کی عظیم الشان استقبال کرکے تاریخ رقم کردی، منوں پھولوں کی پتیوں نے بے نظیر بھٹو کے ٹرک اور اطراف میں گاڑیوں ، لاریوں، ٹرکوں کو سرخ کردیا، جلوس روانہ ہوا ، پنجاب بھر کی ضلعی تنظیموں کے رہنما جو اپنے اپنے ٹرکوں پر سوار تھے سڑکوں کے اطراف پارٹی پرچموں اور بینروں کے ساتھ ساتھ چل رہے اور بے نظیر بھٹو کے ٹرک آگے انسانوں کا سمندر تھا، دور دور تک سر ہی سر نظر آرہے تھے، جلوس آگے بڑھ رہا تھا، صوبہ سرحد کا قافلہ بلوچستان کی تنظیم اور سندھ بھر کے رہنماؤں کے قافلے جلوس میں اضافہ کرتے گئے، ایئرپورٹ کی حدود سے باہر آتے آتے 11 بج گئے، بے نظیر بھٹو کے ٹرک پر مخدوم خلیق الزماں، فیصل صالح حیات، جہانگیر بدر، شیخ رفیق احمد، جنرل ٹکا خان، ملک معراج خالد سوار تھے ٹرک کے چاروں طرف ہزاروں لوگ ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے، 10 اپریل کا دن ایک نئی تاریخ رقم کررہا تھا، بھٹو کے نعرے گونج رہے ہیں، جلوس آگے بڑھ رہا ہے، انقلاب کا قافلہ آگے بڑھ رہا ہے، بے نظیر بھٹو کے چہرے پر چمک تھی، فتح کی چمک، وہ ہاتھ ہلا کر عوام کو سلام پیش کررہی ہیں اور عوام تجدید عہد کر رہے ہیں، ہجوم میں سے نعرہ آیا بھٹو ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں، پھر پنجاب کا مقبول نعرہ ٹھاہ ٹھاہ طفیل ٹھاہ، مودی ٹھاہ، اس بار ایم آر ڈی کی وجہ سے بعض نام نہیں لیے جارہے عوام کا جوش بڑھتا جارہا ہے اور 10 گھنٹے کی مسافت میں یہ جلوس مینار پاکستان پہنچا مس بے نظیر بھٹو اسٹیج پر نمودار ہوئی تو نعروں اور تالیوں سے عوام کا جم غفیر اور سارا ماحول گونج رہا تھا، پنجاب کی تنظیم نے بڑی محنت کی تھی مس بے نظیر بھٹو ہاتھ ہلا کر تالیوں کی گونج میں عوام کا ساتھ دے رہی تھیں، ضیاء کے تمام تر اقدامات ظلم و ناانصافی کے باوجود عوام کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہیں ہوئی تھی، آج عوام بھٹو کی بیٹی کا استقبال کرکے بھٹوز کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے تھے۔ رہنماؤں کی تقاریر کے بعد مس بے نظیر بھٹو خطاب کے لیے آئیں تو پندرہ منٹ تک تالیاں بجتی رہیں، بے نظیر بھٹو کی آواز گونجی میرے بھائیو، مزدورو، کسانو، نوجوانو بھٹو کی بیٹی آپ کو سلام پیش کرتی ہے، آج آپ نے ثابت کردیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کرسکتی، آج آپ نے ثابت کردیا ہے کہ بھٹو شہید زندہ ہیں، آپ کی آنکھوں میں بھٹو شہید کی چمک ہے، آپ کا عزم و حوصلہ اس عہد کی تجدید کررہا ہے کہ آپ ظلم و ناانصافی کو شکست دیں گے، جاگیرداری ختم ہوگی، آمریت ختم ہوگی، ہم اپنے اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ اپنے لہو کی سرخی سے سماج پر چھائی سیاہی وناانصافی، ظلم، تشدد کا خاتمہ کرکے امن ترقی خوشحالی لائیں گے، اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور یہی بھٹو ازم ہے۔ مس بھٹو بتاتی ہیں کہ ’’مجھے دھمکیاں دی گئیں مجھے کہا گیا سیاست چھوڑدو، تمہارا باپ اور تمہارابھائی شہید ہوچکا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تمہیں بھی قتل کردیا جائے، مجھے کہا گیا کہ عورت پاکستان میں سیاست نہیں کرسکتی لہٰذا آپ گھر بیٹھ جائیں۔ میں نے کہا میں موت سے نہیں ڈرتی، میرا اللہ میری حفاظت کرے گا، میری پارٹی کے کارکن میری حفاظت کریں گے، میرے عوام دشمنوں سے نمٹ لیں گے، میں نے کانٹوں کا راستہ قبول کیا جب قائدعوام پھانسی چڑھ سکتے ہیں، کارکن پھانسی چڑھ سکتے ہیں میرے سینکڑوں بھائی کوڑے کھا سکتے ہیں زنجیریں پہن سکتے ہیں تو میں بھی حاضر ہوں، آمریت کا مقابلہ کروں گی، ظلم کا خاتمہ کروں گی، پاکستان کو عظیم ملک بناؤں گی‘‘۔ بے نظیر بھٹو نے عوام سے سوال کیا آپ آزادی چاہتے ہیں، آپ جمہوریت چاہتے ہیں، آپ انصاف چاہتے ہیں، عوام نے کہا ہاں ہم آزادی، جمہوریت، انصاف چاہتے ہیں۔ بے نظیر نے پوچھا ’’کیا ضیاء جائے؟‘‘ عوام نے کہا جاوے جاوے ضیاء جاوے اور پھر یہ نعرہ پنجاب کی گلیوں ، بازاروں، کارخانوں، میدانوں میں گونجنے لگا۔ لاہور کے تاریخی جلسے کے بعد مس بے نظیر بھٹو نے 12 اپریل سے 2 مئی تک پنجاب کے تمام شہروں اور اضلاع کا طوفانی دورہ کیا ہر جگہ بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا۔
مس بے نظیر بھٹو نے لاہور کے جلسے کا اختتام ڈاکٹر خالد جاوید خان کی نظم ’’میں باغی ہوں‘‘ پر کیا تھا پھر یہ نظم عوامی اور انقلابی نظم بن گئی اور ملک بھر میں گونجنے لگی۔
مس بے نظیر بھٹو نے دورہ پنجاب کے دوران غیر ملکی نشریاتی اداروں اور اخبارات کو کئی انٹرویو دیئے اور ہر بڑے شہر میں پریس کانفرنس اور صحافیوں سے ملاقاتیں کیں اور واضح کیا کہ ہم مکمل طور پر پرامن تحریک چلا کر جنرل ضیاء کی آمریت سے ملک کو نجات دلائیں گے اور اپنی منزل پائیں گے۔ پنجاب کا دورہ مکمل کرکے مس بے نظیر بھٹو 3 مئی 1986ء کو کراچی تشریف لائیں، کراچی کا استقبال بھی تاریخ کا عظیم الشان استقبال تھا۔ 10 اپریل کو لاہور کے استقبال کے بعد کراچی کے صدر این ڈی خان اور سندھ کے صدر مخدوم خلیق الزماں مس بے نظیر بھٹو سے ہدایت لے کر آئے تھے، سید قائم علی شاہ، مخدوم امین فہیم، میرہزار خاں بجارانی، پرویز علی شاہ، علی نواز شاہ، خادم علی شاہ، نواب یوسف تالپور، عبدالسلام تھیم، حسین شاہ بخاری، پیار علی الانا، یہ سندھ کونسل کے اراکین تھے جنہوں نے کراچی کے استقبال کے سلسلے میں پروگرام کو حتمی شکل دی، اسٹیج کی ذمہ داری لیبر بیورو کے رہنماؤں جناب عزیز میمن، عثمان غنی، حبیب الدین جنیدی نے لی تھی، ٹرک انتظام لیاری کے رہنماؤں رحیم بلوچ، احمد علی سومرو اور دیگر کے لیے طے کیا تھا۔ امیر حیدر کاظمی سرور، احسن منور سہروردی، رضا ربانی، ساتھی اسحاق واجہ، کریم داد، محمد حسین دھنجی، مولانا احترام الحق تھانوی، اختر چاؤلہ، نور الہدیٰ، شیر محمد بلوچ، نعیم حسنی، خلیل قریشی، مرزا مقبول، افسر زیدی، شفیع جاموٹ، جاوید ترمذی، سہیل عابدی، خواتین میں سیما رفیق، نور جہاں سومرو، بیگم شمیم این ڈی خان، منیرہ شاکر، تاجدار صدیقی، سیما رفیق، علاؤ الدین شیخ، خالد لطیف اور سیٹھ ابراہیم کراچی کے استقبال کے انتظام میں نمایاں تھے۔
3 مئی تاریخ نئی کراچی لاہور سے بازی لے گیا کراچی کی تاریخ میں اس جیسا استقبال نہ کسی کا ہوا ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے، کراچی ایئرپورٹ سے شاہراہ قائدین تک کا سفر 12 گھنٹوں میں طے ہوا، ایئر پورٹ سے اسٹار گیٹ تک اور شاہراہ فیصل پر سارے سندھ سے آئے ہوئے ہاریوں، کسانوں، مزدوروں کے سر ہی سر تھے کراچی کے ہر علاقے کے عوام نے اس عظیم الشان استقبال میں شرکت کی، کراچی کے صدر این ڈی خان سمیت تمام ذمہ داروں کی روز و شب کی محنت عوامی رابطے کی زبردست مہم کے ذریعے کراچی کو پرجوش بنا دیا تھا، 3 مئی 86ء کراچی کی تاریخ کا وہ دنتھا کہ جس دن کوئی لسانی تعصب نہ تھا، کوئی فرقہ واریت نہیں تھی، کوئی طبقاتی تضاد نہ تھا، کراچی کا ہر شہری بھٹو شہید کی بیٹی کی جھلک دیکھنا چاہتا تھا اور عوام کے سمندر میں بھٹو کی تصویر بے نظیر پاکستان کی تقدیر بے نظیر، رات 11 بجے شاہراہ قائدین پہنچی، ان کے ٹرک پر صفدر عباسی سارے راستے نعرے لگواتے ساتھ آئے، اسی ٹرک پر پہلی بار ناہید خان کراچی میں نظر آئیں ناہید خان لندن میں مس بے نظیر بھٹو کی سیکریٹری کے طور پر کام کررہی تھیں، 3 مئی کو کراچی میں مس بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے پیپلز پارٹی کراچی پی ایس ایف کراچی سپاٹ پیپلز یوتھ پیپلز لیبر بیورو کے ایک ایک کارکن نے زبردست جوش و خروش کے ساتھ روز و شب کام کیا تھا اور کراچی کے تمام مکاب فکر کے سیاسی شخصیات نے بھی مثبت کردار ادا کیا، وہ دن کراچی میں اتحاد یکجہتی سیاسی رواداری کا ایک فقید المثال مظاہرہ تھا جس سے خوف زدہ ہو کر جنرل ضیاء نے وہ بھیانک کھیل شروع کیا جس کے ہم یرغمال بن گئے، اس پر آئندہ صفحات میں بات ہوگی۔ 3 مئی کی رات 11بجے جب محترمہ بے نظیر کا تاریخی جلوس شاہراہ قائدین کے اس چوک پر پہنچا جہاں اب انڈر پاس بنا دیا گیا ہے تو ان دنوں کا نقشہ یہ تھا کہ مزار کے چاروں اطراف جو چوڑی سڑکیں تھیں اُن کے عین وسط میں شاہراہ قائدین کی یہ چورنگی تھی جس پر پیپلز پارٹی لیبر بیورو نے شاندار وسیع اور اونچا اسٹیج بنایا تھا چاروں طرف سڑکوں میں دور دور تک عوام ہی عوام تھے، یہ منظر دیکھ کر مجھے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 3 مارچ 1977ء کا کراچی کا آخری انتخابی جلوس یاد آگیا جب اسی جگہ پہلی بار نعرہ لگا تھا:
جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا
آج شہید بھٹو کی بیٹی اُسی جگہ اُسی چوک پر آمریت کو للکار رہی تھی عوام سے فیصلہ لے رہی تھی، جاوے جاوے ضیاء جاوے کے نعروں کی گونج میں دنیا کو بتا رہی تھی کہ اب ضیاء کو جانا ہوگا۔ مس بے نظیر بھٹو نے 4 مئی کی شام پارٹی کے اہم رہنماؤں کے ساتھ طویل میٹنگ کی اور اہم تنظیمی فیصلے کیے، غلام مصطفی جتوئی جو گذشتہ 2 ماہ سے غیر فعال تھے اور ان کی جگہ مخدوم خلیق الزماں جو قائم مقام صدر کے فرائض انجام دے رہے تھے اُن کو مکمل صدر بنانے کا اعلان کردیا گیا۔ غلام مصطفی جتوئی نہ تو 10 اپریل کے لاہور کے استقبال میں شریک ہوئے اور نہ کراچی کے 3 مئی کے استقبال میں شریک ہوئے تھے۔ 6 مئی کو کراچی کے سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری راقم الحروف کو دی گئی، 7 مئی 1986ء سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے سندھ کا دورہ شروع کیا، ٹھٹھہ،بدین، حیدر آباد، میر پور خاص، ہالا، دادو، سیہون، نواب شاہ، شکار پور، سکھر کے دورے کرکے وہ لاڑکانہ پہنچیں، سندھ کے عوام نے ہر جگہ اُن کا والہانہ استقبال کیا، بے نظیر بھٹو کے ان دوروں اور عوام میں ان کی زبردست پذیرائی نے جنرل ضیاء کو پریشان کردیا چونکہ مارشل لاء ختم ہوچکا تھا، سیاسی سرگرمیاں تیزی کے ساتھ جاری تھیں اور جنرل ضیاء دیکھ رہا تھا کہ نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور عوام جمہوری سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراک کر رہے ہیں، اس کے بنائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو بھی پر نکالنے لگے ہیں تو اس نے عوام کو تقسیم کرنے کے لیے لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں پر ہاتھ رکھنے کا منصوبہ بنایا۔ دوسری طرف مس بے نظیر بھٹو نے کراچی تا خیبر دورے کرکے عوام کو متحرک کردیا تھا اور ایم آر ڈی بھی فعال ہوگئی تھی، چنانچہ تحریک بحالی جمہوریت کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان اور مس بے نظیر بھٹو کے درمیان 19 جون 1986ء کو لاہور میں ملاقات ہوئی جس میں اگست سے دوبارہ تحریک کا آغاز کرنے پر اتفاق ہوا، اس فیصلے کے بعد ’’پس پردہ قوتیں‘‘ سرگرم ہوگئیں اور لسانی فسادات کرائے گئے جس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور قومی، سیاسی و جمہوری قوتوں کے ساتھ یکجا ہونے والے عوام کو تقسیم کردیا، سندھ میں جیئے سندھ کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ اور پنجابی پختون اتحاد نامی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی، اُن کو اسلحہ اور روپیہ فراہم کیا گیا، اس پوری سازش کا واحد مقصد پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر قومی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکنا تھا، MRD ، 14 اگست 1986ء سے دوبارہ تحریک شروع کرنے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔
8 اگست کو کراچی کے نشتر پارک میں مہاجر قومی موومنٹ کا جلسہ منعقد ہوا جہاں پنجابی پختون برادری کے خلاف زہریلی اور اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اسلحہ کی نمائش کی گئی، نقاب پوش اسلحہ بردار دستے جلأہ گاہ اور اسٹیج پر موجود تھے اس تمام صورتحال سے انتظامیہ کی صرف نظر کی پالیسی اس حقیقت کو کھول دیتی ہے کہ کون کیا کرا رہا تھا۔
14 اگست 1986ء کو لاہور میں MRD نے جلۂ عام کرنا تھا اُس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف تھے پنجاب حکومت نے جلؤہ عام کی اجازت نہیں دی، MRD کے مرکزی لیڈر نوابزادہ نصراللہ خان نے کراچی میں جلۂ عام کا اعلان کردیا، یہ اعلان 11 اگست 1986ء کو کیا گیا اُسی رات کراچی میں پی پی پی کی مقامی قیادت اور صوبائی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا، محترمہ بے نظیر بھٹو نے 12 اگست کو اعلان کردیا کہ وہ 14 اگست کو 3 بجے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لیاری کے تاریخی ککری گراؤنڈ جائیں گی اور ’’یوم آزادی‘‘ کے جلسے سے خطاب کریں گی اور محترمہ بے نظیر بھٹو اعلان کے مطابق 14 اگست کو 70 کلفٹن سے لیاری کے لیے روانہ ہوئیں، محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلوس کو تین تلوار کی چورنگی کلفٹن پر روکا گیا، لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ بھی کی گئی، تمام تر تشدد کے باوجود راستہ تبدیل کرتے ہوئے مختلف راستوں پر پولیس کی تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے بے نظیر بھٹو لیاری پہنچ گئیں اور عوام سے خطاب کیا، واپسی پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو 70 کلفٹن سے گرفتار کرکے لانڈھی جیل میں نظر بند کردیا گیا، اس تمام کارروائی کے ردعمل میں دوسرے دن احتجاجی ہنگامے شروع ہوگئے اور تمام تر احتجاج لیاری، ملیر، لانڈھی اور ابراہیم حیدری کے علاقوں تک محدود رہا، کراچی شہر کے وہ تمام علاقے جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی پرسکون رہے، یہ شہری اور دیہی تقسیم کا مظاہرہ تھا جبکہ اندرون سندھ تمام تر گرفتاریوں کے باوجود موثر احتجاج ہوا حکومت کا اقدام جمہوری قوتوں کے خلاف سازش کا ثبوت تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف سازش کو تیز کردیا گیا اور اگست کے آخر میں غلام مصطفی جتوئی نے لاہور میں نیشنل پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا، مولانا کوثر نیازی بھی اُس میں شامل ہوگئے اور حنیف رامے نے بھی اپنی مساوات پارٹی کو NPP میں ضم کردیا۔
9 ستمبر 1986ء کی شام مس بے نظیر بھٹو سمیت تمام اسیر کارکنوں اور رہنماؤں کو رہا کردیا گیا، دوسرے روز انہوں نے کارکنوں سے خطاب کیا اور پرجوش انداز میں حکومت کے اقدامات کی مذمت کی، انہوں نے اندرون سندھ کے کارکنوں اور عوام کو خراج تحسین پیش کیا اور پرعزم جدوجہد جاری رکھنے کا عہد لیا۔ اکتوبر میں کراچی میں سہراب گوٹھ کے پختون مہاجر تصادم نے کراچی میں فسادات کا سلسلہ شروع کردیا ، علی گڑھ اورنگی اور دیگر علاقوں میں لسانی گروہی فسادات سنگین ہوگئے اور یہ سلسلہ دسمبر 86ء کے آخر تک جاری رہا، جس سے محب وطن سیاسی جمہوری قوتوں کے لیے مشکل صورتحال پیدا ہوگئی۔ غیر سیاسی غیر جماعت بنیادوں پر قائم ہونے والی اسمبلیوں میں جماعتی سیاست شروع ہوچکی تھی، سندھ اسمبلی میں اسپیکر کے خلاف قرار داد کے نتیجے میں حسین ہارون سندھ اسمبلی کے اسپیکر نہ رہے تھے، قومی اسمبلی کے اسپیکر فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حامد ناصر چٹھہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ہوگئے، کراچی میں بلدیہ عظمیٰ توڑ دی گئی تھی اور میئر عبدالستار افغانی سمیت 90 کونسلر گرفتار کرلیے گئے مرکز میں نظر آرہا تھا جنرل ضیاء کی محمد خان جونیجو کی حکومت پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔
مئی 1987ء کے آخر میں مس بے نظیر بھٹو بیگم نصرت بھٹو کی عیادت کے لیے لندن چلی گئیں، 14 جولائی کو کراچی کے علاقے میں بوہری بازار میں دو بم دھماکوں میں 76 افراد ہلاک اور دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، یہ دھماکے اور اس سے قبل ہونے والے کئی دھماکے افغانستان میں جاری نام نہاد جہاد کا ردعمل تھا کراچی کے علاوہ لاہور، پشاور میں بھی اس نوعیت کے دھماکے ہوچکے تھے لیکن یہ سانحہ سب سے بڑا تھا۔
29 جولائی کو لندن میں بیگم نصرت بھٹو نے اعلان کیا کہ اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی منگنی جناب حاکم علی زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری سے کردی گئی ہے اور شادی دسمبر 1987ء میں کراچی میں انجام پائے گی۔ منگنی کی رسم لندن میں ادا کی گئی جس میں دونوں خاندانوں کے صرف قریبی افراد نے شرکت کی۔ (جاری ہے)