تجزیہ
سلمان عابد ’اطراف‘ کی ابتدا سے قلمی سرپرست ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال کا اپنے مخصوص انداز میں حقیقت پسندی سے تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں بھی منظرِ عام پر آکر مقبول خاص و عام ہوچکی ہیں۔ اس بار وہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا نواز شریف کا سیاسی مستقبل بچ سکے گا۔ آپ پڑھئے اور اپنی رائے دیجئے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے سیاسی کیریئر کی ایک مشکل اننگز سے بچ کر ایک محفوظ سیاسی راستے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ایک طرف وہ اپنے سیاسی مستقبل کو بچانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اپنے اوپر لگائے گئے کرپشن، بدعنوانی ، جعلسازی ، دھوکہ دہی سمیت جھوٹ پر مبنی بیان بازی سے بھی نکلنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاسی اور قانونی دونوں محاذوں پر مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر اور ان کے خاندان کو ایک خاص منصوبہ بندی ، حکمت عملی اور سازشی کھیل کی بنیاد پر ایک بند سیاسی و قانونی گلی میں دھکیلا جارہا ہے ۔اگرچہ وہ ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین سمیت اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں مشکلات کا شکار رہے او ران کی حکومتوں کو بھی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔مگر اس بار ان کی مشکل ماضی کی مشکلوں سے زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ نظر آتی ہے ۔
بنیادی طور پر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی پہلی اور آخری کوشش یہ ہی ہے کہ وہ ان تمام مشکلات اور قانونی پیچیدگیوں کو اسٹیبلیشمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر خود کو معصوم اور سیاسی شہید بنانے کی کوشش کریں ۔نواز شریف ، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی ، چوہدری احسن اقبال ، خواجہ آصف،سعدرفیق، دانیال عزیز،طلال چوہدری ، مریم اورنگزیب سمیت دیگر اہم ساتھی بڑی شدت سے نواز شریف او ران کی فیملی کے حق میں یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کو اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل پیرا نہ ہونے کی سزا دی جارہی ہے ، جبکہ عدالت عالیہ کو ان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے ۔لیکن اس بیانیہ کو نواز شریف اور مریم نواز کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ بڑی سیاسی پزیرائی نہیں مل سکی ، جس کی ان کو توقع تھی ۔
یہ بیانیہ محض خارجی سطح پر ہی کمزور ثابت نہیں ہوا بلکہ خود نواز شریف کی جماعت اور ساتھیوں سمیت ارکان اسمبلی میں بھی داخلی محاذ پر بھی اس پر رائے تقسیم نظر آتی ہے ۔اگرچہ مسلم لیگ )ن(بدستور نواز شریف کی قیادت میں متحد نظر آتی ہے ۔ نواز شریف نے کمال ہوشیاری سے سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں ایک دستوری ترمیم کی مدد سے اپنی پارٹی کی صدارت کو بچالیا ہے ۔لیکن اب ان کی قیادت کے بارے میں خود ان کی جماعت کے اندر سے آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں ۔یہ ایک خاص مہم ہے جس میں خود نواز شریف کی جماعت میں سے ان کے بھائی شہباز شریف کی حمایت میں بیان بازیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ موجودہ حالات میں نواز شریف پارٹی کی عملی صدارت سے علیحدہ ہوکر یہ باگ ڈور شہباز شریف کو دے دیں ۔ یقینی طور پر یہ آوازیں سیاسی تنہائی میں نہیں ہورہیں بلکہ اس کے پیچھے خود مسلم لیگ )ن(کے اندر ایسے لوگ ہیں جو اس مہم کے پیچھے کھڑ ے ہیں ۔ ان میں جو دو بڑے نام ہیں وہ چوہدری نثا ر اور شہباز شریف کے ہیں جو ایک متبادل قیادت پر زور دے رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف پاکستان کی سیاست میں ایک طاقت ور فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو سیاسی طور پر گرانا یا منظر سے غائب کرنا اتنا آسان نہیں جتنا یہاں کچھ لوگ سمجھتے ہیں ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان
میں پھوٹ ہے ، یہ بھی آدھا سچ ہے ۔ کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت اور مزاحمت یہ اسی خاندان کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ اسٹیبلیشمنٹ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اس حکمت عملی کو ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکے ۔ البتہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے جو اختلافات ہیں ان کی نوعیت مستقبل کی سیاست میں اسی خاندان میں سیاسی بالادستی اور گرفت حاصل کرنا ہے ۔لیکن کیونکہ اس وقت جو سیاست پاکستان میں رائج ہے وہ طاقت او راختیارات کے درمیان کھڑی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جو لوگ پارٹی سے وابستہ ہیں یا جو ارکان اسمبلی ہیں وہ حالات و واقعات کی بنیاد پر معاملات کو سمجھ کر اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ۔
یہ جو نواز شریف سیاسی طور پر ’’ مجھے کیوں نکالا گیا ‘‘ کی بنیاد پر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے ، وہ نیب کی جانب سے دائر کردہ ریفرنسز اور اب نواز شریف اور ان کے خاندان پر فرد جرم عائد کرنے اور سنگین الزامات کے بعدوہ خود کو کتنا معصوم اور بے گناہ ثابت کرسکیں گے ، امکان کم نظر آتا ہے ۔ عدالتیں بنیادی طور پر ثبوت اور دستاویزات کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں۔لیکن سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں عدم دستاویزات کی عدم فراہمی کے بعد اس کا امکان کم ہے کہ وہ اب نیب کی عدالتوں میں کچھ نیا پیش کرسکیں ۔اگر سپریم کورٹ کی جانب سے طے کیے جانے والے وقت میں عدالتیں نواز شریف اور ان کے خاندان پر جرم ثابت ہونے پر سزائیں سناتی ہیں تو نواز شریف کا سیاسی مقدمہ اور زیادہ کمزور ہوجائے گا ۔نواز شریف کی مشکل یہ بھی ہے کہ وہ بڑی تیزی سے سیاسی جماعتوں کی مجموعی طور پر حمایت کھوتے جارہے ہیں ۔ ان کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ان کی اتحادی جماعتیں نواز شریف سے سیاسی فاصلے پر ہیں۔
نواز شریف کی مشکل یہ ہے کہ اول اگر وہ خود کو پیچھے رکھ کر سار ے معاملات شہباز شریف کو دیتے ہیں تو اس سے ان کی اپنی سیاسی حیثیت کمزور ہوگی اور اس کا ایک بڑا نقصان خود ان کی بیٹی اور سیاسی جانشین مریم نواز کو بھی ہوگا۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ شہباز شریف اس خاندان اور جماعت میں ایک بڑی متبادل شخصیت ہیں ،مگر ان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ خود شہباز شریف پر بھی دو بڑی تلواریں لٹک رہی ہیں جن میں سانحہ ماڈل ٹاون اور حدیبیہ ملز کا معاملہ ہے ۔ اس لیے اگر نواز شریف کی سیاست ڈوبتی ہے تو خود شہباز شریف بھی نہیں بچ سکیں گے ۔
اگرچہ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ ان کے لیے کام کریں گے ، لیکن شہباز شریف نواز شریف کے خلاف خود سے بغاوت نہیں کرسکیں گے اور اگر کریں گے تو وہ غیر اہم ہوسکتے ہیں۔
نواز شریف اور مریم نواز کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے خود اداروں کو ٹکراو کی پالیسی اختیار کرلی ہے ۔ جو لب ولہجہ ان اداروں کے بارے میں اختیار کیا جارہا ہے اس کا نقصان مفاہمت کم اور ایک بڑے ردعمل کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔نواز شریف کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی حمایت اور خاص طو رپر پس پردہ زرداری سے مفاہمت کے نتیجے میں احتساب کے نئے بل کی منظوری پارلیمنٹ سے یقینی بنا کر اپنے خلاف قائم کیے گئے مقدمات پرخود بھی اور دوسروں کے لیے بھی محفوظ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔لیکن اس کھیل میں سیاسی جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کیسے کھڑی ہوتی ہیں ، سوالیہ نشان ہے ۔نواز شریف کی کوشش ہوگی کہ وہ ان تمام مقدمات میں تاخیری حربے اختیار کرکے صورتحال کو مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات تک لے جائیں تاکہ وہ وہاں اکثریت حاصل کرسکیں ۔لیکن اگر نیب کے مقدمات میں عدالتوں اور حکومت کی جانب سے تاخیری حربے سامنے آتے ہیں تو نواز شریف کی مشکل عمران خان ہونگے جو ان کے خلاف سڑکوں پر آسکتے ہیں۔یہ حکمت عملی بھی سوچی جارہی ہے کہ احتساب میں ججز اور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ان پر بھی دباو بڑھایا جاسکے ۔
نواز شریف کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ سارا بحران 2018کے انتخابات سے قبل سامنے آیا ہے ۔ محض نواز شریف کو ہی نہیں بلکہ ان کی سیاسی جماعت اور انتخابات لڑنے والے سب ہی پریشان ہیں اگر عدالتوں نے نواز شریف کو مجرم ثابت کرکے سزائیں سنادی تو اس کا ایک بڑا اثر انتخابی ماحول اور نتائج پر بھی پڑسکتا ہے ۔ایک حکمت عملی یہ سوچی گئی تھی کہ نواز شریف سیاسی میدان میں کود کر بڑے جلسوں کی صورت میں اپنے خلاف مقدمات کے قانونی اثرات کو کم کرکے سیاسی برتری سمیٹنے کی کوشش کریں گے ، لیکن اب فوری طور پر اس کے امکانات بھی کم نظر آتے ہیں ۔ اگر نواز شریف خود انتخابی مہم کا حصہ نہیں بنتے تو اس کا نقصان بھی براہ راست ان کی جماعت کو نتائج میں ہوسکتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کے سامنے بڑا چیلنج اپنی ذات اور خاندان کو سیاسی طور پر بچانا ہے ، ان کے سامنے جماعت سے زیادہ فرد کی اہمیت ہے ۔اسی سوچ کو بنیاد بنا کر وہ پوری جماعت کو اپنے بچاو کے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔یہ ہی وہ نقطہ ہے جہاں ان کی جماعت میں ایک تقسیم بھی نظر آرہی ہے کہ ہمیں نواز شریف کا ساتھ کتنا اور کس حد تک دینا چاہیے اور وہ نجی مجالس میں اقرار کرتے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ساتھ خود نواز شریف اور مریم نواز بھی حالات کے بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ۔