کمپیوٹر اور جدید سائنسز کی نیشنل یونیورسٹی

کمپیوٹر اور جدید سائنسز کی نیشنل یونیورسٹی
ڈاکٹر جواد شمسی اور سید مسرور علی کے انٹرویو
لائبریری میں 23ہزار سے زائد کتابیں

’اطراف‘ یونیورسٹیوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ کیونکہ ہمارا مستقبل یہیں پرورش پارہا ہے۔ ان عظیم درسگاہوں میں ہی ہماری آئندہ نسلیں زیر تربیت ہیں۔ جنہیں اس ملک کی تقدیر سنبھالنا ہے۔ فیصلے کرنے ہیں۔ اس بار ’اطراف‘ کے چیف ایڈیٹر فاسٹ کا دورہ کررہے ہیں۔ جو اب نیشنل یونیورسٹی برائے کمپیوٹر سائنسز اور ایمرجنگ سائنسز کا چارٹر حاصل کرچکی ہے۔ ایمرجنگ سائنسز میں وہ تمام جدید علوم شامل ہوجاتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ان دنوں پڑھائے جارہے ہیں۔ وہ علوم بھی جو بعد میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔ بہت ہی اہم اور حساس ادارہ۔ پاکستان کے ایک نامور معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق کی یادگار۔جدید علوم کے اس ادارے کے بانی ڈاکٹر موصوف ہی تھے۔ کراچی کیمپس کی رُوداد پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کیجئے۔

ڈاکٹر جواد احمد شمسی
پروفیسر ڈائریکٹر نیشنل یونیورسٹی کراچی کیمپس

کراچی کیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جواد احمدشمسی کا دفتربہت منظّم اور ترتیب خوشگوار۔
لگتا تھا کہ ہماری آمد سے ان کا انہماک ٹوٹا ہے وہ بہت ہی توجہ سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے۔ آج کل تو دنیا آن لائن ہوگئی ہے۔ یہ کمپیوٹر جس نے بھی ایجاد کیا ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کہ وہ سارے کام جن کے لیے دھوپ۔ بارش۔ کپکپاتی سردی میں گھومنا پڑتا تھا۔ وہ سب ایئر کنڈیشنڈ دفترمیں بیٹھے بیٹھے مکمل ہوجاتے ہیں۔
شمسی سے مجھے پنجابی سوداگران دہلی یاد آتے ہیں۔میں سلام دعا کے بعد اس اہم یونیورسٹی کے کراچی کیمپس کے سربراہ سے تصدیق چاہتا ہوں کہ ان کا تعلق بھی اس برادری سے ہے۔ وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور فخر کے ساتھ اثبات میں جواب دیتے ہیں۔ ہمارا تبادلہ خیال اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ یونیورسٹیاں تو اب ملک میں بہت ہیں۔ آپ کے ہاں ترجیح کس اصول کو دی جارہی ہے۔

جواد احمد شمسی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اوّل و آخر میرٹ ہے۔ داخلے میں کوئی سفارش ہے نہ بعد میں۔ تدریسی اعتبار اور معیار کو قائم رکھتے ہیں۔ داخلہ انٹر کے بعد بھی ہوتا ہے۔ بیچلر کے بعد بھی۔ داخلے کے لیے باقاعدہ ٹیسٹ پاس کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا شروع سے ہی عزم ہوتا ہے کہ ہم اپنے عظیم وطن کے لیے بہترین شہری تیار کریں۔ اسی لیے ہمارے ہاں اسٹوڈنٹس سوسائٹی تشکیل دی گئی ہے۔ نصابی۔ ہم نصابی۔ غیر نصابی سرگرمیوںمیں طالب علم بہت ذوق شوق سے شریک ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ ان اسٹوڈنٹس کو ملک میں مختلف اقسام کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہیں۔ چیلنجوں کا سامنا کرناہے۔ اس لیے ایسے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن سے ان کے اندر قومی سوچ کی تعمیر ہو۔ اخلاقیات کی ترویج کے لیے ایک Character Building Society۔ ’’کردار ساز انجمن ‘‘بھی ہے۔ جس کے تحت طالب علم اسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قومی دنوں پر تقریبات میں قائد اعظم اور بانیان پاکستان کی خدمات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ مباحثے بھی ہوتے ہیں۔
وبا کے باعث چھ ماہ تک کلاسز نہیں ہوسکیں۔ لیکن آئن لائن لیکچر ہوتے رہے۔ اب درسگاہیں کھلنے والی ہیں۔ جائزہ لیں گے کہ طالب علم کس سطح پر ہیں۔
’’ہمارا استفسارہے ۔آن لائن کلاسز کا تجربہ کیسا رہا۔؟‘‘

’’ہمارے ہاں تو چونکہ کمپیوٹر سائنسز پڑھائی جاتی ہیں اس لیے سب ہی کمپیوٹر آشناہیں۔ بہت ذمہ داری سے کلاسز میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ آن لائن کلچر اب دنیا بھرمیں فروغ پارہا ہے۔ اس کے لیے ڈسپلن اور سنجیدگی درکار ہے۔ اساتذہ بھی اس سے اچھی طرح روشناس ہورہے ہیں۔
جواد صاحب کہہ رہے ہیں ۔ اچھا شہری ہر ملک کی ترقی اور تہذیب کے لیے ضروری ہے۔ اچھی جگہ سے تعلیم حاصل کی ہو تو فرق پڑتاہے۔ اگر فاغ التحصیل ہوکر ہمارے نوجوان دوسرے ملکوں میںجارہے ہیں ۔ اس سے گھبرانا نہیںچاہئے کیونکہ یہ باہر جاکر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ وہاں کھلا مقابلہ ہوتا ہے۔ اس میںجب اپنا مقام بناتے ہیں تو پاکستان کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔
’’آپ کی یونیورسٹی نے اپنے نامور طالب علموں کی فہرست تو بنائی ہوگی۔‘‘
’’بالکل۔ ہمیں فخرہے کہ ہمارے ایک طالب علم ظفر علی نے اپنی 3فلموںپر 2014میں آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اور بھی سابق طالب علموں کے نام نیٹ پر مل جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ کی درسگاہ میں کن مضامین پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔؟‘‘
’’ہمارا تعلق کمپیوٹر سائنسز سے ہے۔ اس لیے اس میں انجینئرنگ۔ سیکورٹی۔ الیکٹریکل انجینئرنگ پر زیادہ توجہ ہے۔ سوشل سائنسز کے بارے میں ویسے تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے۔‘
’آپ کے اساتذہ کے آرٹیکل کہاں کہاں شائع ہوتے ہیں۔‘‘
’’ ہمارے اساتذہ کے آرٹیکل غیر ملکی یونیورسٹیوں کے جرنلوں میں بارہا چھپ چکے ہیں۔‘ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تحقیق کے لیے جو رقوم(Grants) ملتی ہیں۔ انہیں ہم زیادہ تر ایسی تحقیق پر صَرف کرتے ہیں جن سے ہمارے شہروں میں زیادہ آسانیاں فراہم ہوسکیں۔‘
’ ’نیشنل یونیورسٹی کا غیر ملکی یونیورسٹیوں سے بھی اشتراک ہوگا۔اس بارے میں کچھ بتائیں۔‘‘
’’ ہماری یونیورسٹی خصوصی مضامین پر توجہ دیتی ہے۔ اسی حوالے سے ناروے۔ کینیڈا۔ کوریا۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں سے ہمارا اشتراک ہے۔ ترکی اور سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے مل کر بھی کچھ تحقیق اور تجربات کیے ہیں۔‘‘
ہم جب یہ انٹرویو کررہے ہیں تو پورے ملک میں بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ میں اس حوالے سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اس بربادی میں زیادہ فقدان انجینئرنگ کا محسوس ہوا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔‘
’’ وہ کہتے ہیں۔ کسی حد تک آپ کا تاثر درست ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جن اداروں اور افراد کی یہ ذمہ داری ہے انہوں نے احسن طریقے سے کام نہیں کیا۔ ہمارا انفرا اسٹرکچر ہماری آبادی کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال ہمیںکوشش کرکے بہتری کی طرف جانا چاہئے۔ جن ملکوں نے ان مسائل پر قابوپایا ہے ان کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں۔‘‘
’’ کیا آپ حالیہ بارشوں کے حوالے سے اپنے ہاںکچھ ریسرچ کروارہے ہیں۔‘‘
’ فوری طور پر تو نہیں۔ لیکن ایچ ای سی کی طرف سے ہمیں کچرے کے انتظام اور ٹریفک کے اژدہام پر ریسرچ ملی ہے۔ جو ہم کرواچکے ہیں۔‘
’’کیا اس ریسرچ کو عام کیا جاتا ہے۔‘‘
’’ہم تو ایچ ای سی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو انہیں عام کرسکتے ہیں۔‘‘
’’ ان تحقیقی تجربات سے کیا قومی مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے؟‘‘
’’ بالکل مل سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے بھی دلچسپی لیں۔ ساتھ دیں۔ تحقیق کے ذریعے جو تجاویز اور سفارشات دی جائیں۔ ان پر عمل کیا جائے۔‘‘
’’میں دریافت کررہاہوں کہ کیا تحقیق کے سلسلے میں آپ کامختلف صنعتوں سے رابطہ رہتاہے‘‘
’’ جواد صاحب بتارہے ہیںکہ ہمارا صنعتکاروں اور بینکوں سے رابطہ ہے۔ ہمارے گریجوایٹس کو وہ اپنے ہاں پہلے عارضی طور پر تربیت کے لیے لیتے ہیں پھر مستقل ملازمتیں بھی مل جاتی ہیں۔‘‘
’’جواد صاحب نے بڑے فخر سے بتایا کہ ایچ ای سی کی گرانٹس کی بدولت ہم نے لاپتہ بچوں کی تلاش کے لیے ایک سافٹ ویئر بناکر دیا۔ جو بہت کامیاب رہا ہے۔ بچوں کو ڈھونڈنے میں مدد ملی ہے۔ اسی طرح بینکوں کے اے ٹی ایم میں مزید سہولت کے لیے بھی ہماری تحقیق بہت نتیجہ خیز رہی ہے۔‘‘
’’آپ کی یونیورسٹی ایچ ای سی کی رینکنگ میں کس نمبر پر ہے۔‘‘
’’ ہماری یونیورسٹی کمپیوٹر سائنس سے متعلق ہے۔ کمپیوٹر سائنسز کی یونیورسٹیوں کی الگ سے درجہ بندی نہیں کی جاتی ہے۔‘‘
’’غیر نصابی سرگرمیوںکے حوالے سے وہ بتارہے ہیںکہ ہر سال ہم اپنے طالب علموں کو پاکستان ٹورپر لے جاتے ہیں۔اساتذہ بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ دو ہفتے کا سیاحتی سفر زیادہ تر شمالی علاقوں کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مباحثے ۔ڈرامے اور اسپورٹس کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔‘‘
’’ سالانہ جلسۂ تقسیم اسناد ہمارے ہاں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بہترین طالب علموں کا انتخاب پڑھائی۔ حاضری۔ غیر نصابی سرگرمیوںمیں شرکت کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ ایسے طالب علموں کو نقد انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔‘‘
ہم جواد احمد شمسی صاحب سے اجازت چاہ رہے ہیں۔ کلاسز اگر چہ نہیں ہورہی ہیں۔ انتظامی امور کاہجوم ہے۔ جلد ہی درسگاہ کھلنے والی ہے۔ اس کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔
ڈاکٹر جواد احمد شمسی نے 1998 میں این ای ڈی یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجوایشن کی اس کے بعد یونیورسٹی آف مشی گن ڈیئربورن سے 2002میںایم ایس پھر 2009 میں وین اسٹیٹ یونیورسٹی ایم آئی امریکہ سے پی ایچ ڈی کی۔

سید مسرور علی

منیجر ایڈمنسٹریشن اور بیرونی رابطے

ہم نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز کے کراچی کیمپس میں کار سے اتر رہے ہیں تو ماسک پہنے کراچی کیمپس کے منیجر ایڈمنسٹریشن سید مسرور علی خیرمقدم کے لیے موجود ہیں۔ کووڈ 19 کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں تعلیم کا سلسلہ تو موقوف ہے لیکن انتظامی تدریسی عملہ یونیورسٹی میں اب بھی موجود ہوتا ہے۔سید مسرور علی اس عظیم درسگاہ سے 1985سے وابستہ ہیں۔ پہلے یہ فاسٹ یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ فائونڈیشن برائے ایڈوانسمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی۔میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد کیا تھا۔ مسرور صاحب کہہ رہے ہیں کہ بنیادی مقصد تھا پاکستان کے نوجوانوں میں کمپیوٹر سائنس اور دوسری جدید سائنسز کی تدریس اور اعلیٰ درجے کی تربیت۔ ہوا یوں کہ جسٹس اخلاق حسین اپنی املاک سے ایک فائونڈیشن قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہاں حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ سے ان کی صاحبزادی وابستہ تھیں۔ شاید ان کے ذریعے ہی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ظفر حسین زیدی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اپنا مدعا ظاہر کیا۔ تو ظفر زیدی صاحب نے کہا کہ پاکستان میںکمپیوٹر سائنس کی کوئی درسگاہ نہیںہے۔ یہ رائے جسٹس صاحب کو بھی اچھی لگی۔ یہ شاید 1983 یا 1984کی بات ہے۔ نیشنل بینک آئی بی ایم بھی اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ جسٹس صاحب کا عزم یہ تھا کہ پاکستان کے لوگ ہی اس مشینری کو چلائیں۔ ان دنوں ایک کمپیوٹر کی قیمت 42لاکھ روپے تھی۔ اور  اتنا بڑا کہ پورا کمرہ اس سے بھر گیا۔ اس کے صرف پانچ ٹرمینل تھے۔ پانچ نوجوانوں کو تربیت دی گئی ۔ فائونڈیشن پورے اخراجات برداشت کررہی تھی۔ آغا حسن عابدی نے بھی اس درسگاہ کو وقت کی ضرورت سمجھا۔ انہوں نے دس کروڑ روپے دیے۔ میں نے ہی یہ چیک لاہور کے لیے ڈیپازٹ کروایا تھا۔ ظفر زیدی صاحب۔ میرٹ کے قائل تھے۔ ان کے دفتر میں پیچھے لکھا ہوا تھا۔ ’میرٹ ہمارا معیار‘۔ظفر زیدی صاحب کے مشورے سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کوپہنچا۔ پہلے اس کا صدر دفتر شارع فیصل پر تھا۔ محمد علی جناح یونیورسٹی کے ساتھ۔اب بھی پوسٹ
گریجویٹ کی کلاسز وہیں ہوتی ہیں۔ اس نئی بلڈنگ میں یہ ادارہ 1995میں منتقل ہوا۔طالب علموں کا پہلا دستہ(بیج) 1985میں فارغ التحصیل ہوا۔ تعداد 30تھی۔ 86-87 میں یہ تعداد 110ہوگئی۔ ان دنوں بی سی ایس کی ڈگری کے لیے کراچی یونیورسٹی سے الحاق تھا۔ اب الحمد للہ یونیورسٹی خود ڈگریاں جاری کرسکتی ہے۔بی ایس کی کلاسز اسی کیمپس میں ہوتی ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی کا چارٹر 2000 میں تفویض ہوا۔ اب صدر مقام اسلام آباد میں ہے۔ کراچی ۔ لاہور۔ پشاور اور فیصل آباد میں کیمپس ہیں۔سید مسرور علی کو اس ادارے سے طویل وابستگی پر بہت فخر ہے۔ وہ اسے باعث اعزاز خیال کرتے ہیں۔ تعلق حیدر آباد سندھ سے ہے۔ ان کے والد سید محبوب علی زیدی صحافی بھی تھے اور پرنٹر بھی۔ ان کے اپنے نام سے محبوب پرنٹنگ پریس تھا۔جہاں اُردو اخبارات ’بشارت‘ اور ’پاسبان‘ شائع ہوتے تھے۔فائونڈیشن جب قائم ہوئی تو اس کے چیئرمین جنرل رفاقت علی تھے۔ صدر ڈاکٹر محبوب الحق۔ سید مسرور علی ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرکے بہت پُر جوش ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر موصوف جب بھی کراچی آتے ان کے سیکرٹری ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ لیکن میں بھی ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ بہت مہرباں مگر اپنے کام میں منہمک۔ ایک بار وہ آرہے تھے تو اسلام آباد سے فون کرکے بتایا کہ اس بار ان کا سیکرٹری ساتھ نہیں ہے۔  بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس دفعہ سیکرٹری کے فرائض مجھے انجام دیناہوں گے۔ میں نے جب ایئرپورٹ سے ان کو لیا تو انہوں نے خاص طور پر میرے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ جہاں قلم تھی نہ ڈائری۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے سوچا کہ جب دفتر پہنچیں گے تو دونوں چیزیں وہاں سے اٹھالوں گا۔ مگر دفتر جاتے ہی ڈاکٹر صاحب میز کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی مصروفیات بتانے لگے۔ میں نے کچھ کچھ یاد رکھنے کی کوشش کی۔ پھرپہلی میٹنگ شروع ہوئی تو میں نے فوراً ڈائری سنبھالی۔ ان کے سیکرٹری کو اسلام آباد فون کیا ان سے ساری مصروفیات معلوم کرکے ڈائری میں درج بھی کیا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کو یہ ساری مصروفیات زبانی یاد تھیں۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ میں آرہا ہوں۔ میری تقریر جمیل الدین عالی صاحب نے تیار کی ہے۔ وہ ان سے لے کر اپنے پاس رکھیں۔ میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ عالی صاحب اسپتال میں ہیں۔ ان کا فون آیا کہ کیا ہوا تقریر لے لی۔ میں نے عرض کیا کہ عالی صاحب تو اسپتال میں داخل ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اسپتال کیوں نہیں گئے۔ یہ بڑے لوگ جب کوئی ایسا اہم کام کرنا ہو تو اسپتال میں داخل ہوجاتے ہیں۔ وہاں یہ کام پُر سکون انداز میں ہوجاتے ہیں۔میں نے پھر یہ تقریر عالی جی سے اسپتال جاکر ہی لی۔ سید مسرور علی مشہور سفارتکار اور پاکستان کا گہرا درد رکھنے والے جناب قطب الدین عزیز کے بہت قریب رہے ہیں۔ ان کی یادیں بھی بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں۔انہوں نے ان کی ایک کتاب The Prophet of Islam A Blessing to Mankind کا تحفہ بھی عنایت کیا۔ اور اپنے والد محترم پروفیسر سید محبوب علی زیدی کا مجموعہ کلام ’شہناز غزل‘ بھی پڑھنے کے لیے دی۔ مارچ 1996 میںجامعہ کراچی کے شعبۂ تصنیف و تالیف ترجمہ سے شائع شدہ یہ مجموعہ۔شاعری کے پرانے دیوانوں کی ترتیب رکھتا ہے۔ حروف تہجّی کے اعتبار سے غزلیں دی گئی ہیں۔سید مسرور علی صاحب کے پاس یادوں کے خزانے ہیں۔ ان سے کسی وقت دوبارہ مل کر مختلف ادوار کی یادیں تازہ کریں گے۔

نیشنل یونیورسٹی کی لائبریری


لائبریاں۔’اطراف‘ کی خصوصی دلچسپی کا نشان ہیں۔ اس یونیورسٹی میں آمد بھی اسی شوق کی بدولت ہوئی۔ ماہنامہ ’ٹوٹ بٹوٹ‘ کے دنوں کے نو عمر لکھاری رفیق اختر یہاں اسسٹنٹ لائبریرین کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ یہاں انہیں عطیہ شاہد جیسی مستعد۔ متحرک لائبریرین مل گئی ہیں۔ جن کی نگرانی میں ان کی صلاحیتیں مزید چمک رہی ہیں۔
عطیہ شاہد نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایل آئی ایس master in library and information science ۔2008میں کیا۔
اچھا لگتا ہے جب کوئی ذمہ دار ایسے ادارے کے بارے میں بہت پُر عزم اور پُر جوش ہو۔ اور خاص طور پر کتاب کے بارے میں ۔ہر کتاب دوست انسان دوست بھی ہوتاہے۔
یہ لائبریری یونیورسٹی کے تہ خانے میں ہے۔ کتابوں کی دنیا بہت ہی خوبصورت انداز سے تعمیر کی گئی ہے۔ بعد میں ان کی ترتیب۔ تشکیل بھی توجہ سے۔ صاف ستھرا۔ خوشگوار ماحول۔ کووڈ 19 کی وجہ سے ان دنوں طالب علم نہیںتھے۔ کرسیاں خالی تھیں۔
پہلے توہمیں اخبارات و رسائل کے ریک نظر آرہے ہیں۔دنیا بھر کے تحقیقی اور کمپیوٹر سے متعلق رسائل۔ انگریزی زیادہ۔ ان بین الاقوامی رسائل میں ’اطراف‘ کو بھی سجا دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے۔ ایک کمپیوٹر روم ہے جس میں 30مشینیں موجود ہیں۔
آن لائن ریزرویشن بھی کی جاسکتی ہے۔
نئی کتابوںکا ریک الگ لگا ہے۔
عطیہ شاہد اس لائبریری کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ کونسی کتاب کہاں ہے۔ کونسا سیکشن کہاں ۔ طالب علموں کے لیے باقاعدہ سافٹ ویئر بنایا گیا ہے۔ انہیں کونسی کتاب چاہئے۔ پی ڈی ایف ہے۔ اصل کتاب بھی ہے یا نہیں۔ وہ گھربیٹھے بھی کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے My Book Shelfکا رابطہ ہے۔ درسی کتابیں بھی موجود ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذخیرے سے بھی ربط ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے ذخائر سے بھی۔ اس یونیورسٹی کے اپنے تحقیقی مقالوں کی کاپیاں نیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ ایک الگ سیکشن میں یہ مقالات مجلد شکل میں بھی موجود ہیں۔
مطالعے کے لیے آرام دہ صوفے کرسیاں بھی ہیں۔ کچھ Discussion Roomہیں۔ جہاں اساتذہ اور طالب علم کتابوں پر بات چیت کرسکتے ہیں۔ میٹنگ روم الگ ہیں۔ ایک سیکشن اُردو کتابوں کا ہے۔ یہ اُردو کتابیں ڈجیٹل پیراہن میں بھی دستیاب ہیں۔ ان کا عملی مظاہرہ بھی ہمیں دکھایا گیا۔
عام طورپر لائبریریوں میں ریفرنس سیکشن کی کتابیں جاری نہیں کی جاتیں مگر یہاںطالب علموں کو یہ خصوصی سہولت دی گئی ہے کہ اس سیکشن سے بھی کتابیں لے جاسکتے ہیں۔بین الاقوامی کتابیں باقاعدہ امپورٹ کی جاتی ہیں۔
لائبریری کا عام اسٹاف بھی تربیت یافتہ ہے۔ کتابوں سے محبت کرتا ہے۔ انہیں محبت سے جھاڑتاہے۔ پوری لائبریری کو ہر وقت صاف ستھرا رکھا جاتا ہے۔
کووڈ 19 کی وجہ سے سینٹائزیشن کا اہتمام ہے۔ ماسک کے بغیر داخلہ ممنوع ہے۔
لائبریری میں کتابیں
کل تعداد: 23605
کمپیوٹر سائنس: 6181
الیکٹریکل انجینئرنگ:2940
مینجمنٹ سائنسز:3265
سائنس اور ہیومٹیز:5812
عام کتابیں:3340
A/V میٹیریل:2067
جرنل: 13
میگزین:14
ہائر ایجوکیشن کمیشن:14
سے منظور شدہ
ڈیٹا بیس

فاسٹ سے نیشنل یونیورسٹی کا سفر
یکم جولائی 2000کو صدر پاکستان نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے فاسٹ کو یونیورسٹی کا چارٹر عنایت کیا۔ یہ نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز آرڈی نینس 2000کہلاتا ہے۔
یونیورسٹی کے اختیارات اور فرائض بہت متنوع ہیں۔ عام یونیورسٹیوں سے کچھ مختلف اور زیادہ ہی تحقیق پر زور دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی اتھارٹیز ہیں۔ 1۔اکیڈمک کونسل۔2۔ایڈوائزر اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ۔3۔ بورڈ آف گورنرز۔4۔ بورڈ آف ٹرسٹیز۔5۔ فنانس اور پلاننگ کمیٹی۔6۔سلیکشن بورڈ۔7۔ کوئی دوسری اتھارٹی جو قواعد وضوابط کے مطابق تشکیل دی جائے۔
اس کے سرپرست صدر پاکستان ہیں۔
وژن ہے۔ عالمی معیار کے پروفیشنل پیش کرنا۔ جو ذمہ دار شہری اور اچھے انسان ہوں۔
مشن ہے:
1۔مختلف علاقوں سے بہت ذہین طالب علموں کو تلاش کرنا اور انہیں با بصیرت قائد اور عالمی معیار کے پروفیشنل بنانا۔
2۔ طالب علموں کو کسی مالی۔ نسلی۔ صنف۔ مذہب کے امتیاز کے بغیر معیاری تعلیم کی فراہمی۔
3۔علم کے فروغ کے لیے تحقیق اور فاضلانہ سرگرمیوں کی ترویج۔
فاسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے پہلے صدر ڈاکٹر محبوب الحق اور اب معروف درد مند پاکستانی وسیم سجاد ہیں۔ اور سیکرٹری جنرل رانا غلام شبیر ۔ ریکٹر ڈاکٹر محمد ایوب علوی پی ایچ ڈی۔
چنیوٹ فیصل آباد کے ڈائریکٹر آفتاب معروف۔ اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وسیم اکرام۔ کراچی کیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹرجواد احمد شمسی۔ لاہور کیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حامدخان۔ پشاورکیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طارق ہیں۔
ہر سال سارے کیمپسوں سے 1500 کمپیوٹر گریجوایٹس معاشرے میں روشنی پھیلانے کے لیے تیار کرکے بھیجے جاتے ہیں۔

پاکستان لائبریری میں پہلی بار کتابوں کی چوری کاتدارک
لائبریری میں ایک خصوصی تجربہ کیا گیا ہے۔ جو غالباً پاکستان میںپہلی بارہے۔ اگرکوئی کتاب باضابطہ طور پر اندراج کے ذریعے لائبریری اسٹاف سے نہ لی جائے تو لائبریری سے باہر نکلتے ہی الارم بج اٹھتا ہے یہ مشین 15لاکھ روپے کی ہے۔ کتاب میں بھی ایک ٹیپ لگادی جاتی ہے۔ ساری کتابوں کو اس مشین پر رجسٹر کروادیا گیا ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے لائبریری سے کتاب کی چوری پر بڑا فخر کیا جاتا تھا۔ میرے پاس بھی ایک کتاب برٹش لائبریری لاہور کی Metaphysics کے بارے میں اب تک موجودہے۔ بہت سے دوست احباب کی ذاتی لائبریریوں میں بھی کچھ کتابیں لائبریریوں کے نمبر اور ٹیگ کے ساتھ مل جاتی ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی کی لائبریری نے طالب علموں کو اس اعزاز سے محروم کرنے کے لیے اتنی خطیر رقم خرچ کردی ہے۔

نیشنل یونیورسٹی کراچی کیمپس لائبریری

 

ہر کیمپس کی الگ لائبریری ہے۔ الگ اسٹاف ہے۔
کراچی کی لائبریری کی تفصیلات
بیک وقت نشستیں:300
رقبہ:10400 مربع فٹ
طلبہ کے تبادلۂ خیال :6
کے کمرے
اساتذہ کے لیے کمرے:1
میٹنگ روم۔ :1
آرام دہ کرسیوں کے ساتھ
ریسرچ جرنل جو باقاعدگی سے آتے ہیں
الیکٹرونک جرنل۔کمپیوٹر سائنس:26
الیکٹرک انجینئرنگ:18
رسالے: کمپیوٹر سائنس:4
الیکٹرک انجینئرنگ:4

 

واٹس ایپ  7806800-0331
ای میل [email protected]com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “کمپیوٹر اور جدید سائنسز کی نیشنل یونیورسٹی

اپنا تبصرہ بھیجیں

thirteen + 17 =