’ ہم ٹی وی‘ پر نہ عورت بہت کمزور نہ پُرتشدد مناظر کی حوصلہ افزائی
ہم نیٹ ورک کی سائرہ غلام نبی کی جراتمندانہ گفتگو
ٹی وی ڈراما کونٹینٹ ڈپارٹمنٹ کے بارے میں سنجیدہ طبقوں کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہاں نئے زمانے کے بچے بچیاں کچھ اس طرح بٹھائے گئے ہیں کہ انھیں بھلے ہی ڈرامے کی الف بے تک معلوم نہ ہو لیکن وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ انھیں کونسا ڈراما اچھا لگا اور کونسااچھا نہیں لگا۔ یہی معیار طے کیا گیا ہے کونٹینٹ ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والوں کا، کیونکہ عام خیال یہ ہے کہ ٹی وی ڈراما موضوعاتی اور تیکنیکی حوالے سے اب کوئی اہم اور معرکہ آرا کام رہ ہی نہیں گیا۔ ایک عجیب سا ہلڑ مچا ہوا ہے اور پسند ناپسند کے علاوہ کوئی اور مقصد کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لوگ کہتے ہیں۔ اس طرح سے یہ کاررواں گزر رہا ہے کہ نہ باد مخالف کا کوئی ڈر ہے نہ رتیلے طوفان میں چھپ جانے کا خوف بھلا ایسا دنیا کے کسی بھی اور شعبے میں ممکن ہے کہ آپ اس کام، اس ہنر کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں پھر اس سے منسلک ہوں ۔ فیصلہ سازی میں بھی آپ کی شمولیت یقینی ہو۔ یہ بالکل کسی اناڑی ڈاکٹر کے آپریشن کرنے جیسا ہے ۔اس کے بعد جو نتیجہ بر آمد ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی بعض لوگوں کی رائے ہے۔
تاہم سائرہ غلام نبی اس شعبے کے ان معدودے چند افراد میں شمار ہوتی ہیں جنھیں جانکاری کے اسرار رموز سے پوری طرح لیس سمجھا جاتا ہے۔ وہ ڈرامے کے تاریخی منظر نامے سے ہی واقف نہیں ہیں بلکہ انھیں موجودہ عہد کے فنی ، سماجی اور سیاسی تقاضوں سے بھی کما حقہ واقفیت ہے ان کا ادبی ، سماجی شعور بے پناہ اور قابل ذکر ہے۔ وہ اپنے دھان پان سے سراپے میں کتنے بڑے اور بھاری علم کاکوہ گراں اٹھائے ہوئے ہیں اس کا اندازہ ان سے گفتگو کرکے اچھی طرح ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی ایک گفتگو کا احوال حاضر ہے۔
’’ڈرامے کی آپ کی نظر میں کیا تعریف ہے اور یہ کہ ان پندرہ سالوں میں جب سے پرائیویٹ ڈراما انڈسٹری قائم ہوئی ہے ڈرامے میں کونسی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں؟‘‘
’’ میں سمجھتی ہوں ڈراما فکشن کی ایک شکل ہے۔قصہ کہانیاں سننا ہماری فطرت میں شامل ہے۔ اور ویسے بھی یہ صنف سب سے قدیم ہے ۔ یونانی شاعرہومر کی رزمیہ اڈیسی کو لے لیں یا مکالمات افلاطون کو دیکھ لیں ۔ شاعرانہ خیالات کی ترسیل اسی صنف میں ہوتی تھی ۔ بلند آہنگ مکالمے کی شکل میں کہانی بیان کی جاتی تھی ۔انگریزی روایات سے ہوتے ہوئے بر صغیر آتے ہیں پھر ہم امانت لکھنوی کی اندر سبھا اور اس کے بعد آغا حشر کاشمیری کے تھڑ یکل کمپنی کابھر پور دور دیکھتے ہیںاس سے اور آگے آتے ہیں تو امتیاز علی تاج( انارکلی ڈرامے کے تخلیق کار)شوکت تھانوی وغیرہ کے ریڈیائی ڈرامے کا اثر و نفود دیکھتے ہیں۔اس کے بعد نومبر 1964 میں پاکستان میں ٹیلی وژن کا آغاز ہوتا ہے۔جس سے ڈراما اسکرین کی ایک صنف بن جاتا ہے۔۔ یوں سمجھیے کہ فکشن کی سب سے پہلی صنف ہی یہی تھی ۔ٹی وی اسکرین پر آکر خواص کے ساتھ عوام کی دلچسپی کا اچھا خاصا سامان بن جاتا ہے اور ایک بہت بڑی تعداد تفریحی مواد کے طور پر اسے دیکھتی ہے۔ آج کل اسے ڈراما سیریل اور سوپ سیریل کے عنوانات سے یادکیا جاتا ہے۔ڈرامے میں تبدیلیوں کا جہاں تک تعلق ہے ۔اس کے لیے آپ کو اپنے سماج کو بھی دیکھنا ہوگا کہ سماج میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ آج سے اگر بیس برس پرانی بات کی جائے تو ہمارے پاس آج کے مقابلے میں زیادہ ٹھہرائو تھا۔ ہم رک کر بات سننا اور سمجھنا جانتے تھے۔ ہم کتاب سے جڑے ہوئے تھے۔
ہمارا انٹلیکٹ ایک دوسری طرح کا تھا۔ پھر تیز رفتارٹیکنالوجی کی شمولیت کے بعد ہماری زندگی کی رفتار میں بہت نمایاں تبدیلی آئی ہے۔اب ہم ایک بدلے ہوئے منظر نامے میں موجود ہیں۔ انٹرٹین مینٹ کے لیے اب ہمارے ہاتھوں میں ہمہ وقت اسکرین دستیاب ہے۔ سو ہمارے انداز میں بہت عجلت ہے ۔ اور اسی زندگی کا اثر ٹی وی ڈرامے میں نظر آتا ہے ۔کوئی تیس سے چالیس برس تک ٹی وی کی رفتار میں اتنی تیزی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ان گزرے پندرہ برسوںمیں دیکھنے میں آئی ہے۔ آج ہم صرف ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ایکشن کا ری ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ہر کہانی کا فوری انجام بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ تو یہ جو عجلت اور تیزی کا آنا ہے تو یہی وہ تبدیلی ہے جو ان گزرے برسوں میں دیکھنے میں آئی ہے۔‘‘
’’ڈراما صرف تفریح کا ذریعہ ہے یا اس کا کوئی سماجی کردار بھی ہے؟‘‘
’’ کسی بھی آرٹ فارم کو آپ دیکھیں اس کا براہ راست کوئی اصلاحی پہلو نہیںہوتا۔اور نہ ہی کوئی بھی فن اصلاح کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بالواسطہ اس کا تعلق سماج کے تبدیلی کے عمل سے ہوتا ہے۔ یہ آپ کے اندر شعور بیدار کرنے کا ایک عمل ہے، یہ آپ کو فیصلہ کن نتیجے پر لاکر کھڑا نہیں کرتا لیکن فیصلے تک پہنچنے کے لیے راہنمائی ضرور کرسکتا ہے۔ کسی بھی آرٹ فارم سے گزرتے ہوئے آپ کے شعور کو اتنا بلند ہونا چاہیے کہ آپ صحیح اور غلط کو پہچان سکیں۔ کوئی بھی آرٹ خصوصا ً ڈراما آپ کے اندر ایک تحریک پیدا کرتا ہے صحیح اور غلط کو سمجھنے کے لیے۔‘‘
’’آپ کیا سمجھتی ہیں موجودہ حالات میں ہمارا ڈراما یہ تحریک پیدا کرنے کا سبب ہے؟‘‘
’’میں اس طرح سے تو نہیں کہہ سکتی کہ کتنے فیصد یا کس حد تک یہ تحریک پیدا کرنے کا سبب ہے لیکن اتنا کہہ سکتی ہوں کہ ہم سماج کا کوئی نہ کوئی پہلو اپنے ڈرامے میں دکھا تو ضرور رہے ہیں اور جیسا کہ سب جانتے ہیں ایسا کرنے کے لیے ہمیں کہانی اور ڈرامے کے تقاضوں کے ساتھ ہی بات دیکھنے والے تک پہنچانی پڑتی ہے۔عموماًجس طرح کے واقعات ڈراما لکھنے کا سبب بنتے ہیں وہ کسی نہ کسی سطح پر ہمارے آس پاس وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ واقعہ کہیں ہوا ہی نہیںہے آپ ناواقف ہوسکتے ہیں مگر ایسا ہوا ضرور ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اسے ڈرامائی ضرورتوں کے تحت بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں ۔‘‘
’’ایک خاتون کی سوشیل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی گئی جس میںانھوں نے یہ شکایت کی تھی کہ ہمارے ڈرامے لڑکیوں کو سرکشی سکھارہے ہیں، نافرمان بنا رہے ہیں ، گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنا سکھا رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتی ہیں ڈرامے پر یہ الزام کس حد تک درست ہے؟‘‘
’’ میں نہیں سمجھتی کہ اب ہمارے ڈرامے کی اتنی اثر پذیری ہے ۔اس سے کہیں زیادہ سوشیل میڈیا کی عام لوگوں تک رسائی ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک، یو ٹیوب، انسٹا گرام اور بہت سے دوسرے ۔۔۔۔جہاں بہت سے واقعات براہ راست لوگوں تک پہنچ رہے ہیں وہ اچھے ہیں یا برے یہ میں نہیں کہتی مگر خیالات کا آزادانہ استعمال ہورہا ہے ۔۔ لوگوں کے ایک دوسرے سے سوشیل میڈیا کے ذریعے روابط ہورہے ہیں، رشتے بن رہے ہیں ۔ معاملات اتنے زیادہ براہ راست ہوچکے ہیں کہ ٹی وی ڈراما اس سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ کسی زمانے میں جب پی ٹی وی تھا اور رات کو آٹھ بجے صرف ایک ڈراما ہوتا تھا اس وقت ڈرامے کا سوسائٹی پر ضرور اثر دیکھنے میں آتا تھا، میں خود اس کی شاہد ہوں کہ رات کو اگر کسی سنگر نے کوئی ایک غزل گائی ہے تو اگلے دن وہ غزل ہر جگہ سنائی دیتی تھی لوگوں کی زبان پر ہوتی تھی اس ایک غزل کی وجہ سے اس کا سنگر اس کا شاعر اور اس کا موسیقار سب مشہو ر ہوجاتے تھے۔ آج کل ایسا نہیںہے۔آج تو اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے دکھائے جارہے ہیں کہ لوگوں کو فنکاروں کے نام تک نہیںمعلوم ہوتے۔ آج کا ڈراما چاہے اچھا ہو یا برا ہولوگ اسے بس دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ لوگوں کے پاس ٹی وی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔
پہلے ہم سب استاد کی بات سن کر یا کسی کتاب میں کچھ بھی پڑھ کر مدتوں اسے یادرکھتے تھے لیکن آج کے عہد میں ہم کچھ بھی سن لیں ۔کرتے وہ ہیں جو ہمیں کرنا ہوتا ہے۔‘‘
’’ایک بات جو سب سے زیادہ کہی جاتی ہے آج کے ڈرامے کے بارے میں۔عورت کو بہت مظلوم اور کمزور دکھایا جاتا ہے۔ اور اس سے کاروبار کو بڑھانا ۔ ریٹنگ کو زیادہ اوپر لے جانا مقصد ہے ۔۔۔۔۔تو کیا یہ خواتین کا استحصال نہیں ہے؟‘‘
’’ میں اس پر زیادہ بحث نہیں کروں گی کہ یہ کسی کا مقصد رہا ہے یا نہیں رہا۔میں صرف یہ کہوں گی کہ’’ ہم ٹی وی‘‘ پر اب بھی نہ تو عورت کو بہت کمزور دکھایا جاتا ہے نہ ہم تشدد کو فروغ دینے والے مناظر کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کم سے کم ہم تو ایسا نہیں کرتے اور یہ بات ’’ہم ٹی وی‘‘ کے ڈرامے دیکھنے والے جانتے ہیں، مانتے بھی ہیں۔
لیکن میں پھر بھی یہ کہوں گی کہ عورت کے لیے معاشرہ اب بھی ساز گار نہیں ہے۔ عورت کی تعلیم اب بھی بہت کم ہے۔ اسے پیچھے رکھنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ آپ صرف اس ایک شہر کی بات نہ کریں۔آج بھی ہمارے قصبات ، گائوں چھوٹے شہر میں عورت پسماندہ ہے ۔آج بھی اس سوسائٹی نے عورت کیلئے شوہر کا حصول ہی اس کا سب سے اہم ہدف بنارکھا ہے۔ اور پورے سماج کی کوشش ہوتی ہے کسی بھی طرح اسے ایک مرد کے حوالے کردیا جائے۔ ان پڑھ لوگوں کی بات رہنے دیجے پڑھے لکھے گھروں میں جاب کرنے والی، پڑھی لکھی لڑکی آج بھی معتوب سمجھی جاتی ہے۔سب گھروں میں ایسا چاہے نہ ہو لیکن زیادہ تر جگہوں پر ایسا ہی ہے۔پڑھی لکھی اور اپنی سوچ کی بات کرنے والی عورت آج بھی بری سمجھی جاتی ہے۔‘‘
بتدریج ان رویوں میں کمی نہیں آرہی؟
’’ ان رویوں میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔عورت معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے، پھر سج بن کے ہنستی مسکراتی ہوئی شوہر کو ملے ۔ ساس کی خدمت کرے، گھر میں کھانا بنائے اور بچوں کی پرورش کرے ۔ان سب میں اگر کہیں بھی کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو اسے آج بھی یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم کرتی کیا ہو؟ مرد کے لیے معاشی سرگرمیوں میں اس کا ہاتھ بٹانے کے بعد بھی مرد حضرات عورت کا اس کے گھر اور کچن میں ہاتھ نہیں بٹانا چاہتے حتی کہ میں نے تو ایسا بھی دیکھا ہے کہ عورت اگر اپنی کمائی میں سے ملازم اور خانساماں رکھنا چاہے تو اسے اس کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔‘‘
کیا آپ کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے کہ آپ پتا کرسکیں کہ آپ کا ڈراما دیکھ کر خواتین میں شعورو آگاہی کا کوئی دروازہ کھلا ہے تو کس حد تک؟
’’ جن فورمز پر ہمارا جانا ہوتاہے اور ٹی وی ڈرامے کی بات ہوتی ہے، وہاں سے اور جہاںتک ہماری پہنچ ہے ان سے ملنے ،بات کرنے کے بعد میں یہ سمجھ پائی ہوں کہ عورت نے ابھی تک خود کو پہچانا ہی نہیں ہے ۔اسے یہ بھی نہیںمعلوم کہ اس کے حق کے راستے میں کون ہے اور کون نہیں ہے۔ لبرل اور فیمنسٹ عورتوں کی ایک بہت چھوٹی سی تعداد کو چھوڑ کر ہماری جو عام پڑھی لکھی عورت ہے جو ڈاکٹر، انجینئر یا کسی بھی پیشے سے وابستہ ہے۔ مجھے سوچ کے حوالے سے وہ بھی بہت زیادہ آگے بڑھتی ہوئی نہیں محسوس ہوتی۔۔عورت کے ہاں آگاہی کا سفر اتنا سست ہے کہ میں سمجھتی ہوںاسے تیز کرنے کی باقاعدہ ضرورت ہے۔‘‘
آپ خود ایک ورکنگ وومین ہیں۔ اس تجربے کے بعد آپ کا کیا مشاہدہ ہے گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین زیادہ کمزور ہیں یا ورکنگ وومین زیادہ کمزور اور خسارے میں ہیں؟
’’ میں سمجھتی ہوں دونوں ہی خسارے میں ہیں۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ عورت نے اپنی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اس کا بہت ہی درست فیصلہ ہے ۔ ابھی آپ کو یہ لگتا ہے کہ جو عورت گھر میں بیٹھی ہوئی ہے اسے تو صرف انتظار کرنا ہے اپنے شوہر کا ۔جبکہ ورکنگ وومین اسے تو پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی کرنے ہیں اس تناظر میں اس وقت گھر میں بیٹھی ہوئی عورت تھوڑی فائدے میں نظر آتی ہے، ایسا آج دکھائی دیتا ہے لیکن آنے والا کل اس عورت کا ہے جس نے معاشی سرگرمیوںمیں حصہ لیتے ہوئے خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی جدو جہد کا آغاز کردیا ہے۔عورت کو اب خود انحصاری کے بارے میں فیصلہ لینا ہوگا۔آنے والے وقت میں عورت کو اس بات کا احساس ہوگا کہ اس کا یہ امپاور مینٹ کا فیصلہ ہی درحقیقت اس کی شخصیت کو منوانے کی طرف پہلا قدم تھا آنے والی نسلیں اس فیصلے سے فیض یاب ہوں گی۔‘‘
’’جو لکھنے والی خواتین ڈائجسٹوں میں لکھتی ہیں ان کے لکھنے کی تعداد اور مقدار عموماً کافی ہوتی ہے۔ آپ نے ڈائجسٹ میں کام کیا ہے اور آپ رائٹر بھی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنا کم لکھا ۔ ناول کی طرف تو آپ آئی نہیں لیکن افسانے بھی اتنے نہیں لکھے؟‘‘
’’ایک بات کی یہاں وضاحت ضروری ہے کہ ڈائجسٹ کے ساتھ میں نے ایک خالص ادبی پرچے ’’آئندہ ‘‘ میں بھی دس سال ادارت کی تھی ۔۔ میں نے یقیناً افسانے لکھے اور یہ ٹھیک ہے کہ میں نے کم لکھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے لکھنے لکھانے کو اپنا پروفیشن نہیں بنایا ۔ لہٰذا جب بھی لکھا تو اس وقت لکھا جب میرا دل چاہا یعنی میں نے افسانے کو صرف اور صرف اپنی تخلیقی سوچ کی ترسیل کا ذریعہ بنایا اسے پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا ۔ لیکن اس کے علاوہ میں نے دیگر اصناف میں کافی لکھا ہے ۔جیسے تنقید کے شعبے میںکچھ کام کیا کوئی دو سو سے ڈھائی سو کتابوں پر تبصرے لکھے۔تنقیدی مضامین لکھے۔ کئی کتابوں کےpreface( دیباچے) لکھے ہیں۔صحافت کے دور میںبہت سے انٹرویوز لکھے ہیں ،رپورٹنگ کی ہے۔ پھر یہ کہ میں چونکہ ایڈٹنگ میں رہی ہوں جہاںآپ کو دوسروں کے لکھے ہوئے کوفریمنگ کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام ہمیں جانچ اور ناپ تول سکھاتا ہے بعض اوقات اپنا لکھا ہوا کافی غیر اہم لگنے لگتا ہے۔
میری ٹریننگ ریڈیو پاکستان میں بھی ہوئی، جہاں میں اسکرپٹ لکھا کرتی تھی ،وہاں آپ جانتے ہیں کہ زیر زبر بھی اضافی نہیںہوسکتا کیونکہ جو ٹائم ہوتا ہے اسی ٹائم کے اندر آپ کو اپنی بات مکمل کرنا ہوتی ہے۔ زبان و بیان پر بھی خاصی توجہ دینی ہوتی ہے۔ریڈیو میں بڑے معروف ادیب شاعروں سے سیکھنے کا موقع ملا انہوں نے ہی سکھایا ہے کہ بلیغ جملہ زیادہ بامعنی ہوتا ہے بمقابلہ زیادہ الفاظ میں کہے ہوئے جملے کے۔شاید کم نویسی کی ایک وجہ ریڈیو کی تربیت بھی رہی اور وہاں بہت اچھے استاد نما پروڈیوسر زملے ۔ ۔خواجہ بیگم ، عصمت زیدی، قمر جمیل، یاور مہدی وغیرہ۔۔تو ۔۔ان کی صحبت میں کچھ سیکھنے کی کوشش بھی کی۔۔‘‘
’’آپ نے ڈائجسٹ اور ادب دونوں جہتوں میں کام کیا ہے آپ ان دونوں کا فرق بتانا چاہیں تو کیسے بتائیں گی؟‘‘
’’ میری نظر میں دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے جیسے کوئی بھی طالب علم پرائمری سے گزرے بغیر آگے نہیں جاسکتا تو یہ اس طرح ہے۔ منٹو، بیدی، غلام عباس، عصمت، قرۃ العین کو پڑھنے اور پڑھ کے سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی پر توچڑھنا ہے اور جب مطالعے کی عادت نہیںہوگی تو آپ انھیں کیسے پڑھ سکتے ہیں ۔ کمرشیل لٹریچر مطالعہ کی عادت بناتا ہے۔ کہانیاں تو ان کی بھی زندگی سے ہی لی گئی ہوتی ہیں بس ان میں خیالی افسانوی رنگ آمیزی زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے بہت سے ادیبوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ انھوں نے پہلے بچوں کے رسائل پڑھے پھر ابن صفی کو پڑھا تو میں سمجھتی ہوں یہ بس اسی طرح کا فرق ہے‘‘
جب آپ نے شعور کی منزلوں میں قدم رکھا تو اس وقت کوئی گول کوئی خواب تھا۔ کیا وہ پورا ہوا یا سوچا کچھ تھااور زندگی نے کیا کچھ اور؟
’’چند الفاظ میں یہ کہوں گی کہ جو میں کرنا چاہتی تھی میں نے وہ ہی کچھ کیا ۔میں یہی سب کرنا چاہتی تھی جو میں کر رہی ہوں۔ جرنلسٹ ہی بننا چاہتی تھی ،اخبار میں جاب کرتی تب بھی اس کے میگزین سیکشن میں ہی کام کرتی ۔ میں نے قطعی طور پر جو زندگی گزاری ہے یہ میری اپنی مرضی کی زندگی ہے۔ چھٹی ساتویں میں میں نے شاعری کی تھی اور نویں کلاس میں مجھے لگا کہ میں شاعری میں کچھ ایسا نہیں کرسکوں گی جوعمدہ کہلائے ۔تومیں نے اسے چھوڑ دیا ۔ میں لٹریچر پڑھنا چاہتی تھی۔ جو میں نے پڑھا۔‘‘
آپ کو گھر سے اپنی مرضی سے کوئی بھی فیصلہ لینے کی آزادی تھی؟
’’ جی میرے ابا نے مجھے بہت آزادی دی۔ وہ جو بھی مشورہ دیتے تھے تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے۔کہ میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں ضروری نہیںہے کہ وہی سو فیصد درست ہو، تم میری بات سنو لیکن اسے اپنے ذہن سے پرکھو اور جو تمہیں ٹھیک لگے وہ فیصلہ کرو۔ یہی اعتماد میرے ابا کی طرف سے ملا اور میں نے زندگی اسی اعتماد کے ساتھ گزاری ہے۔‘‘
صحافت پڑھ کے آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ ڈائجسٹ میں جاب کریں گی؟
’’ نہیں سوچا تو میں نے اخبار میں جانے کا ہی تھا لیکن مجھے خواتین ڈائجسٹ میں جاب مل گئی۔ اس وقت جاب ملنا کافی مشکل ہوتا تھا بس میں نے اسے قبول کرلیا۔ اور میں آپ کو بتائوں کہ جب میں نے خواتین ڈائجسٹ میں پہلا قدم رکھا تھا اس وقت تک میں نے کبھی ڈائجسٹ نہیں پڑھا تھا ۔
اسی طرح جب میں ٹی وی ڈرامے کی فیلڈ میں آئی، ا س وقت تک میں نے پی ٹی وی کے علاوہ کوئی ٹی وی ڈراما پورا نہیں دیکھا تھا۔ ہاں یہ بات ضرور کہوں گی کہ مطالعے کی عادت نے میری رہنمائی کی ۔ فکشن سے وابستگی نے بھی میری تربیت کی لہٰذا میں نے کہانیوں کے حوالے سے کام کیا تو مجھے مشکل نہیں ہوئی۔‘‘
آپ ایم ڈی پروڈکشن (ہم ٹی وی نیٹ ورک) میں اسکرپٹ ہیڈ ہیں تو میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ایک ڈراما جو ناظرین کو نظر آتاہے۔ ٹی وی کی اسکرین سے اس میں ایک اسکرپٹ ہیڈ کا کیا کردار ہوتا ہے؟
’’کونٹینٹ کا کردار تو بہت اہم ہوتا ہے۔ کونٹینٹ والوں کے رد، اور قبولیت ہی سے ڈراما لکھا جاتا ہے۔ ڈرامے کی کہانی گرچہ رائٹر کے ذہن میں ہوتی ہے مگر کونٹینٹ ڈپارٹمنٹ ڈراما شروع ہونے سے لے کر آخیر تک ہر ہر مرحلے پررائٹر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اس کی اسکرین کی تیکنیک،کمرشل ویلیوکو بھی نظر میںرکھا جاتا ہے۔اور پھر ڈراما ناظرین تک پہنچ کر کیسے اور کتنی کامیابی حاصل کرے گا۔ ناطرین کا کیا رسپانس اور رد عمل ہوسکتا ہے یہ سب کونٹینٹ کی ذمہ داریوںکا حصہ ہوتا ہے۔‘‘
اگر یہ کہا جائے کہ ڈراما فلاپ ہوا ہے یا زوال پذیر ہے تو کیا یہ ذمہ داری کونٹینٹ کی ہوسکتی ہے؟
’’بالکل ہوسکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ڈراما اوپر جائے اچھا نام اور نمبر حاصل کرے تو ہم کہیں کہ ہمارا ہے اور جب اس کے برعکس نتیجہ سامنے آئے تو ہم کہیں کہ یہ ہم نے نہیں کیا ۔ میں کہوں گی کہ دونوں صورتوں میں کونٹینٹ کو ذمہ داری لینی ہوتی ہے، لینی چاہیے، لیکن یہاں ایک بات کی میں وضاحت کردوں کہ ٹی وی پروجیکٹ کی کامیابی اور ناکامامی کا دارومدار کسی ایک شعبہ یا فرد پر نہیںہوتا کوئی ایک شعبہ ڈرامے کی اونر شپ نہیں لے سکتا یہ مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔تو پھر اس کی کامیابی اور ناکامی دونوں کی ذمہ داری اور کریڈیٹ میںسب کا حصہ ہوتا ہے۔ کسی کا کچھ کم کسی کا کچھ زیادہ مگر ہوتا سب کا ہے۔‘‘
آپک کو کتنا عرصہ ہوچکا ہے ڈراما انڈسٹری میں؟
’’ نو سال ہورہے ہیں‘‘
ان نوسالوں میں کوئی ایسا واقعہ جو آپ کو یاد ہو اور کہنے جیساہو؟ جیسے کوئی ایسی مشکل آئی ہو جس سے نکلنے میں کافی جدو جہد کرنا پڑی ہو؟
’’ میں کام کو ایمانداری سے کرتی ہوں۔ کام کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پورا کرنے پر یقین رکھتی ہوں ۔اس کے بعد نتیجہ کیانکلتا ہے یا جو بھی نکلتا ہے تو میں اسے قبول کرتی ہوں اور پھر یہ کہ ہر مرتبہ ہر اسکرپٹ سے کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ مجھے آئیندہ کیا اور کیسے مزید بہتر کرناہے‘‘
ڈرامے کی دنیا میں آپ ایسا کیا کرنا چاہتی ہیں جو دوسرے نہیں سوچتے؟
’’ ہر زبان میں لکھی گئی بہت ہی شاندارکہانیوں ، ناولز اور کچھ کلاسیکس کہانیوںاور ناولز کو ڈرامے کے قالب میں ڈھالنے کا ہمیشہ سوچتی ہوں۔ جیسا کہ کچھ دن پہلے ہمارے ادارے نے خدیجہ مستور کا آنگن ناول کو ڈرامے کے قالب میں ڈھالا تھا گرچہ ایسی کوششوں کو تجارتی کامیابی کم ملتی ہے ۔ لیکن میں پھر بھی ہمیشہ ایسا کچھ کرنا چاہتی ہوں ۔ کچھ اور موقع ملا تو انشا ء اللہ ضرور کروں گی‘‘
عام طور پرمیڈیا میں لوگ مختلف اداروں اور چینلز میں جاب سوئچ کرتے رہتے ہیں آپ نوسال سے اسی ایک ادارے سے وابستہ ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
’’جس آزادی سے اور جس ذہنی سکون سے مجھے یہاں کام کرنے کا ماحول ملا ہوا ہے، اور جتنا مومنہ درید مجھ پر بھروسا کرتی ہیں ، تو سچ یہ ہے کہ مجھے آفرز بھی آتی ہیں تب بھی میرا یہاں سے جانے کا دل نہیں کرتا یا یوں کہہ لیں میں اپنے آپ کو قائل نہیں کر سکی کہ مجھے یہاںسے کیوں جانا چاہیے۔ پھر میں نے ایک معنوں میں یہاں سے ہی سیکھا ہے ۔‘‘