اُردو 13ویں صدی سے 21ویں صدی تک جدید ٹیکنالوجی کا دور اور اُردو سے رشتہ
فاسٹ نیشنل یونیورسٹی کراچی کیمپس میں محمود شام کا لیکچر
سب سے پہلے تو میں فاسٹ ۔ نیشنل یونیورسٹی برائے کمپیوٹر سائنسز ایمرجنگ سائنسز اور بالخصوص سیدہ عاطفہ بتول لیکچرر اور فیکلٹی ہیڈ لٹریری کلب کا شکر گزار بھی ہوں اور حیران بھی کہ انہوں نے مجھ 80سالہ ضعیف شخص کو ’دور جدید میں ٹیکنالوجی اور اُردو کا رشتہ‘ کروانے کے لیے دعوت دی ہے۔
کمپیوٹر کمپیوٹر کھیلنا۔ نیٹ پر عمر کا زیادہ حصّہ گزارنا آپ نوجوانوں کا مشغلہ ہے۔ ہم تو کاغذ قلم۔ تختی کے رشتے والے ہیں۔ آپ کی پیڈ کی نبض پر انگلیاں رکھتے ہیں۔ ہم زمانے کی نبض پر انگلیاں رکھتے تھے۔
غالب نے کہا تھا:
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اب کی پیڈ پر انگلیاں چلانے والوں کے ہاتھ تو قلم نہیں ہوسکتے۔
فیض احمد فیض یاد آتے ہیں:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں ہم نے
متاع لوح و قلم تو واقعی چھن گئی ہے۔ یا از خود ترک کردی گئی ہے۔ مگر خونِ دل میں کسی نے انگلیاں نہیں ڈبوئی ہیں۔
میں کہاں آپ کے سامنے غالب اور فیض کی باتیں لے بیٹھا ہوں۔ آپ سافٹ ویئر والے بل گیٹس ۔ ایپل واے اسٹیو جابس۔ فیس بک والے مارک زگربرگ۔ واٹس ایپ والے جان کوم۔ ای میل والے اے ٹالنسن۔ کے واقف کار ہیں۔
اقبال نے کہا تھا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے
دنیا ہر روز ہر لمحے تبدیل ہورہی ہے۔ بڑے مہنگے خریدے ہوئے کمپیوٹر کباڑیوں کی ریڑھیوں پر نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات پاکستان میں جو کورسز کیے جارہے ہوتے ہیں وہ امریکہ برطانیہ میں کئی سال پہلے متروک ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کی یونیورسٹی نے کمپیوٹر سائنسز کے ساتھ ساتھ ایمرجنگ سائنسز کا عزم شامل کیا ہے۔ آئندہ جو بھی علوم رُونما ہوں گے۔ آپ انہیں اپنے سلیبس اور فیکلٹی میں شامل کرتے رہیں گے۔
آپ کی یہ درسگاہ۔ Almamater۔ مادر علمی ایک عظیم پاکستانی ڈاکٹر محبوب الحق کے خواب کی تعبیر ہے۔ آپ کو پہلے تو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئے۔ پھر اس امر پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ ایسی منفرد یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ جس نے دوسرے اداروں سے بہت پہلے کمپیوٹر کی اہمیت کا احساس کیا۔ اور 80کی دہائی میں کمپیوٹر سائنسز پڑھانے کی ابتدا کی۔ گزشتہ دنوں ہی میں اپنے ماہنامہ ’اطراف‘ کے لیے انٹرویو کرنے آیا تھا۔ تو مسرور صاحب نے بتایا تھا کہ سب سے پہلا جو کمپیور آیا۔ اس کی قیمت 42لاکھ روپے تھی۔ اور اتنا بڑا کہ پورا کمرہ اس سے بھر گیا۔ اس کے صرف پانچ ٹرمینل تھے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کتنی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اب یہ کمپیوٹر آپ کی ہتھیلی میں سماجاتا ہے۔ اسمارٹ فون اسکا نام ہے۔ آپ اس سے دن رات کھیلتے ہیں۔ یہ آپ کو ہر لمحہ با خبر رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ تحقیق کا نتیجہ ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی سب سے اشرف مخلوق ہے اس لیے اسے اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیتوں اور جواہر سے نوازا ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ایجادات کرتا رہتا ہے جس سے زندگی آسان سے آسان تر اور حرکت تیز سے تیز تر ہوتی رہے۔
موضوع آپ نے بہت اہم چُنا ہے۔
’’دَور جدید میں ٹیکنالوجی اور اُردو کا رشتہ۔‘‘
اس موضوع پر یقینا ریسرچ کی جارہی ہوگی۔ نہیں کی گئی تو باضابطہ ریسرچ ہونی چاہئے۔ کیونکہ اُردو زبان کی ہیئت۔ اس کے الفاظ کے جوڑ Joints ۔ ٹیکنالوجی سے ہمکنار ہونے میں بڑی رُکاوٹ پیدا کررہے تھے۔ اُردو ایشیا کی اہم زبان ہے۔ وکی پیڈیا اسے بولی جانے والی زبانوں میں گیارہواں نمبر دیتا ہے۔ میرے خیال میں یہ پہلی چھ سات زبانوں میں شُمار کی جانی چاہئے ۔کیونکہ جب روزنامہ ’جنگ‘ کی ویب سائٹ شروع کی گئی تو یہ تسلیم کیا گیا کہ ’جنگ‘ سب سے زیادہ دیکھنے جانے والے پہلے پانچ اخباروں میںشامل ہے۔ پاکستان کی تو قومی زبان ہے۔ بھارت میں بھی کئی کروڑ اسے بولتے ہیں۔ اگر چہ لکھتے اسے دوسرے اسکرپٹ میں ہیں جسے دیو ناگری کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی فلموں نے بھی اُردو کو پوری دُنیا میں مقبول کیا ہے۔ بولنے میں تو اُردو اور ہندی ایک ہی ہیں۔
داغ نے کہا تھا:
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاںمیں دھوم ہماری زباں کی ہے
سعودی عرب۔ دبئی۔ ابو ظہبی۔ کویت۔ بحرین۔ برطانیہ۔ امریکہ میں بھی آپ کو اُردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ آپ میں سے بھی کئی خاندانوں کے لوگ کینیڈا گئے ہوں گے۔ کینیڈا والے اپنے وطن میں آنے والوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ اپنی اطلاعات ۔ قوانین اُردو میں بھی جاری کرتے ہیں۔
یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ اُردو کا اصل وطن کونسا ہے اور یہ کس طرح وجود میں آئی۔ مغل بادشاہ تو اپنے ساتھ زبان شیریں فارسی لے کر آئے تھے۔ زبانیں بھی انسانی قبیلوں کی طرح سفر کرتی رہی ہیں۔ سرحدوں کے ساتھ جہاں زمین اور انسانوں کے رنگ بدلتے ہیں وہاں زبان کے لہجے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اپنی علاقائی زبانوں میں ہی دیکھ لیں۔ سندھی زبان کے لہجے مختلف علاقوں میں الگ الگ ہیں۔ یہی بلوچی زبان کا حال ہے۔ پنجابی بھی لاہور کی وکھری ہے۔ ملتان کی وکھری پشتو۔ بلتی۔ کشمیری ۔ پوٹھوہاری۔ سب کے مختلف لہجے ہیں۔
ہندوستان میں مغلوں کے زمانے میں فارسی سرکاری زبان تھی۔ فارسی اور مقامی زبانوں کا جب آپس میں ملاپ ہوا سنسکرت کا خاص طور پر ۔ تو زبان آہستہ آہستہ اُردو میں ڈھلتی گئی۔ امیر خسرو کی دلچسپ شاعری اس کی بہترین مثال ہے۔ جس میں فارسی اور ہندی کے الفاظ ملے جلے ہیں۔
زحالِ مسکیں مکن تغافل دْرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
اسطرح اُردو تیرہویں صدی عیسوی سے سفر کرتی ہوئی اکیسویں صدی تک پہنچی ہے۔ ہاتھ سے لکھنے سے لے کر اب Computrized Caligraphy تک۔
اُردو کی یہ صدیاں پھلانگتے ہوئے ہم بیسویں صدی میں داخل ہوتے ہیں۔ جب اُردو کا کمپیوٹر سے رشتہ باندھا گیا ۔
میں اپنے طور پر اللہ کا شکر گزار ہوں کہ میں نے اُردو خطاطی یا کتابت کے سارے دَور دیکھے ہیں۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں میں 1950 کی دہائی کے آخر تک یہ ہاتھ سے ایک پیلے کاغذ پر کتھئی رنگ کی سیاہی سے لکھی جاتی تھی۔ پتھر پر شائع ہوتی تھی۔ اسے لیتھو کتابت اور طباعت Letho Printing کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد بٹر پیپر پر کتابت ہونے لگی۔ پیلی کن سیاہی استعمال ہوتی تھی۔ اتنا فرق پڑا کہ پہلے ایک ہی کاغذ پر اخبار۔ رسالہ یا کتاب کتابت کی جاتی تھی۔ بٹر پیپر پر آنے کے بعد کتابت کرکے اسے کاٹ کر Pasteکیا جاتا تھا۔ یہ فوٹو آفسٹ پرنٹنگ کہلائی۔
اس عرصے میں انگریزی اور دوسری زبانیں۔ ٹائپ رائٹر سے کمپیوٹر تک پہنچ رہی تھیں۔ اُردو والے عربی اور فارسی ٹائپ رائٹر استعمال کررہے تھے جس سے عبارت نسخ میں آتی تھی۔ اُردو کے خط کو نستعلیق کہا جاتا ہے۔
1970 کی دہائی میں سب کو فکر تھی کہ ہاتھ سے خوش نویسی کی وجہ سے اُردو پیچھے نہ رہ جائے۔ رفتار بہت سست تھی۔ کتابیں چھپنے میں بھی دیر لگتی تھی۔1970کی دہائی کے آخر میں یہ کوششیں شروع ہوتی ہیں۔ میں اس سارے عمل کا عینی شاہد ہوں۔ اس پر فخر بھی کرتا ہوں۔ آپ سے بھی Share کرنا چاہوں گا۔ ایک ایلیٹ پبلشرز ہوتے تھے۔ جو پاکستان میں سب سے خوبصورت کیلنڈر ڈائریاں شائع کرتے تھے۔ اس کے بانی نور احمد صاحب بہت اچھے خوشنویس بھی تھے۔ ان کے صاحبزادے احمد جمیل مرزا کو اُردو کی بہت فکر تھی۔ انہوں نے مونو ٹائپ کمپنی سے رابطہ کیا۔
مشکل یہی تھی کہ اُردو کے جوڑوں کو کیسے قابو کیا جائے۔
اسی اثنا میں Laser Beam Technology ایجاد ہوگئی۔ اس نے اُردو کو برق رفتار کرنے میںبنیادی کردار ادا کیا۔ آپ کو دلچسپ بات بتائوں کہ پہلے کمپیوٹر کو بنے بنائے الفاظ فراہم کیے گئے۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ کئی ہزار بنے بنائے الفاظ کتابت کرکے Prismکی شکل میں مہیا کیے گئے ۔ لیزر بیم سے ہر کمپیوٹر میں سموئے گئے۔
تجربے ہوتے رہے۔ پھر ایک دن وہ خوش خبری سننے میں آئی جس کا برسوں سے انتظار تھا کہ اب اُردو کمپیوٹر سے کتابت ہوسکتی ہے۔
آپ کے علم میں ہوگا کہ ابتدا میں ہر ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہوتی ہے ۔ جوں جوں اس کے Users بڑھتے ہیں یہ سستی اور عام ہوتی رہتی ہے۔ احمد جمیل مرزا صاحب کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سید مصروفِ عمل بھی تھے۔ جو اپنے رہنما کے ان الفاظ کو یاد کرتے تھے کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی۔ اس قومی زبان کو جدید زبانوں کی صف میں لے جانے کی کوششوں میں وہ بھی شامل تھے۔
جب یہ سسٹم ایجاد ہوگیا تو پہلے صارف کی تلاش ہوئی۔ جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمن ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی۔ نئے آلات کے اپنانے میں آگے آگے رہتے تھے۔ فیکس مشین بھی میں نے پہلی بار ان کے کمرے میں دیکھی۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ ٹیلی فون کے سیٹ سے کاغذ کیسے باہر نکل رہا ہے۔
میر خلیل الرحمن نے یہ سسٹم 60لاکھ روپے میں خریدا۔ اور ’جنگ‘ لاہور کا اجراء اسی سسٹم سے ہوا۔
دوسرے اخبارات والے تیار نہیں تھے بلکہ کہتے تھے کہ ایسی کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں۔ کبھی کامیاب نہیں رہیں۔ اب بھی نہیں ہوں گی۔ لیکن جنگ لاہور نے میدان جیت لیا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ بنے بنائے الفاظ کے علاوہ اگر کوئی نیا لفظ آجاتا۔ کوئی نیا نام آجاتا۔ ملکوں میں حکمران بدل جاتے ہیں۔ تو وہ نام اُردو نستعلیق میں نہیں۔ بلکہ نسخ یعنی عربی میں آتا تھا۔ بہت برا لگتا تھا۔ ٹیکنالوجی بدلتی رہتی ہے۔ سستی بھی ہوجاتی ہے۔ میر خلیل الرحمن نے جو سسٹم 60لاکھ میںخریدا وہ اب آپ کو نیٹ سے مفت بھی مل جاتا ہے۔ بازار میں بھی تیس چالیس روپے قیمت ہے۔ احمد جمیل مرزا کے فونٹ کا نام نوری نستعلیق تھا۔ اس کے بعد بہت سے سسٹم آگئے ہیں۔ یہ Inpage کہلاتے ہیں ۔جن میں کاتب۔ صدف۔ شاہکار۔ خطاط۔ سرخاب۔ صفحہ ساز۔ اُردو پبلشر۔ نقاش ۔ اُردو ماہر۔ پارس نگار۔ قابل ذکر ہیں۔کتابت کا مرحلہ طے ہونے کے بعد پھر Page Making کا مرحلہ تھا۔ پہلے تو کتابت کے بعد فلم لگالی جاتی تھی یا ٹریسنگ پیپر۔ اور صفحات Pasteکیے جاتے تھے۔ جبکہ انگریزی اخبارات کے صفحات کمپیوٹر پر ہی ڈیزائن ہوتے تھے۔ میں 90ء کی دہائی میں جنگ گروپ کا ایڈیٹر تھا۔ جب ایک طویل محنت کے بعد پورے صفحات کمپیوٹر پر ڈیزائن ہونے لگے اور اب اخبارات Paperless News Room کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اُردو بولنے لکھنے والی نسلوں کو احمد جمیل مرزا کا احسان مند ہونا چاہئے کہ اگر وہ یہ جرأت نہ کرتے یہ ایجاد نہ کرتے تو اخبارات میں خوبصورتی یکسانیت بھی نہ ہوتی۔ ٹی وی چینل تو اُردو میں آنا بہت مشکل ہوتے۔سارے سائن بورڈ ۔ پینا فلیکس۔ کتابیں۔ بڑی سرعت سے تیار ہورہی ہیں۔ PDF واٹس ایپ سے ای میل سے منتقل ہورہے ہیں۔ اسمارٹ فون پر آپ اپنے پیغامات اُردو میں بھیجتے ہیں۔ چیٹنگ اُردو میں ہورہی ہے۔ نئے معاشقے اُردو میں ہورہے ہیں۔
مگر یہاں میں یہ گلہ بھی کرنا چاہوں گا کہ اُردو سے جہاں اتنی کمائی ہورہی ہے ۔ ٹی وی چینل اُردو سے اربوں روپے کمارہے ہیں۔ انگریزی اخبار کے چینل ہی اُردو میں منتقل ہورہے ہیں۔ وہاں اُردو کی بہبود یعنی Development پر سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے۔ اس وقت دوسری تشکیل یافتہ زبانوں۔ انگریزی۔ چینی۔ روسی۔ ہندی۔ عربی اور فارسی کی طرح اس کی بہبود اور تشکیل کے لیے منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ چینلوں نے اُردو کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ جیسے Space کا مسئلہ ہے الفاظ کو اس جگہ کی مناسبت سے کمپوز کیا جاتا ہے۔ بہت سے الفاظ اگر مقررہ Space سے باہر نکلیں تو پڑھے نہیں جاسکیں گے۔ اس لیے الفاظ کا انتخاب بھی اس کی ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے متعلقہ ذمہ داروں کو اُردو سے پوری طرح با خبر ہونا چاہئے۔ ان کا ذخیرہ الفاظ وسیع ہونا چاہئے۔
اُردو کی ایک بہت اہم خوبی ہے کہ یہ ہر قسم کی آواز کو اپناسکتی ہے۔ بہت سے لہجے اور الفاظ فارسی عربی اور انگریزی میں نہیں بولے جاتے۔ مگر اُردو میں وہ بڑی آسانی سے اپنالیے جاتے ہیں۔
Neuro scientists say that the graphic structure and sound system that are unique to the Urdu language activate the front part of the brain.This helps improve your analytical sense and heighten your capacity for making discussion.
ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے ۔
Learning Urdu helps improve your cognitive abilities. It trains your brain and keeps it strong and healthy. The introduction of new grammatical rules, new vocabulary, new sentence structures and forming new words are good exercises for the brain.
اُردو میں سینکڑوں ویب سائٹس وجود میں آچکی ہیں۔ جہاں آپ کو اُردو کلاسیکی ادب اپنے افسانوں غزلوں نظموں سمیت دستیاب ہے۔ سب سے زیادہ قابل ذکر ریختہ ہے۔ جس میں 3000 سے زیادہ شاعروں کے کلام کی وڈیوز آڈیوز ہیں۔ گلوکاروں کی آواز میں گایا گیا کلام بھی ہے۔ غزلوں کی تعداد 18633 کے قریب متفرق اشعار 14335 ۔ یہ 154 ممالک میں کئی لاکھ سے زیادہ اور شائقین کی نظروں سے گزر چکی ہے۔ اُردو کے مقبول ناول بھی ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ وکی پیڈیا اب اُردو میں دستیاب ہے۔
اُردو کی سب سے اہم خوبی یہ رہی ہے کہ نئی اصطلاحات۔ نئی ایجادات کو اُردو میں ترجمے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ بہت سے الفاظ جوں کے توں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے ٹیلی وژن ہے۔ عربی میں تلفیوزن۔ ہندی میں دور درشن۔ اسٹیشن کو فارسی میں استاسیون۔ کہا جاتا ہے۔ ایئرپورٹ۔ میڈیکل کی بہت سی اصطلاحات اسی طرح اُردو میں بولی جاسکتی ہیں۔ ان پڑھ بھی یہ اصطلاحات اسی زبان میں بول لیتے ہیں۔
ایک یہ تاثر دور کرنے کی ضرورت ہے کہ عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اُردو صرف ادب اور صرف شاعری کی زبان ہے۔ اُردو اظہار کا ایک بھرپور اور مکمل وسیلہ ہے۔ میڈیم ہے۔ جس میں سارے جدید علوم پڑھائے جانے۔ پڑھے جانے کی گنجائش موجود ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں قیام پاکستان سے پہلے سے جدید علوم اور ڈاکٹری کی بھی اُردو میں تدریس ہورہی تھی۔ مختلف شعبوں کی اصطلاحات کا ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ مزید کام بھی ہورہا ہے۔
میں جولائی 2014 سے اپنا ماہنامہ ’اطراف‘ شائع کررہا ہوں۔ اس میں ہماری کوشش یہی ہے کہ اُردو پڑھنے اور بولنے والوں تک پوری دنیا کی جدید ترین معلومات اور بین الاقوامی زبانوں میں شائع ہونے والی اہم کتابیں اُردو میں منتقل کرکے پیش کی جائیں۔ اس میں ایک کتاب New Digital World بھی سلسلہ وار پیش کی گئی۔ جس میں آنے والے زمانوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی زندگی کو کہاں سے کہاں لے جائے گی۔ کنی چیزیں Auto ہوجائیں گی۔ ٹیکنالوجی آپ کے لیے زندگی کتنی آسان کردے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرات اور خدشات بھی ہیں کہ آپ کی پرائیویسی ختم ہوتی جائے گی۔ آپ بڑی معصومیت سے سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں۔ فیس بک پر ہیں واٹس ایپ پر چیٹنگ کرتے ہیں۔ ای میل ارسال کرتے ہیں۔ انسٹرا گرام پن۔ انٹرسٹ۔ ٹویٹر۔ لیکن آپ اپنے وجود کی جہات۔ اپنی عادتیں دوسروں تک پہنچارہے ہیں۔ ان آلات کو ایجاد کرنے والے سب چیزیں ریکارڈ کررہے ہیں۔ تجزیہ کررہے ہیں کہ آپ کی ذاتی کمزوریاں کیا ہیں۔ خاندانی خامیاں کیا ہیں۔ قومی غلطیاں کیا ہیں۔ آپ ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہیں۔ آپ کا ڈیٹا وہ لاکھوں ڈالرز میں بیچ رہے ہیں۔سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک اک لفظ۔ ایک اک حرکت سوچ سمجھ کر کیا کریں۔
آپ کو میںنے بہت زیادہ بور کیا ہے۔ آپ کے چہروں سے اکتاہٹ نظر آرہی ہے اس لیے آخر میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں۔
ایک خاتون انٹرنیٹ پر مصروف ہے ۔ کھوئی ہوئی ہے۔
اسکرین پر یہ الفاظ لہراتے ہیں۔
There is a mail in your box
وہ بھاگی بھاگی گیٹ سے باہر جاتی ہے۔ لیٹر بکس میں جھانکتی ہے۔ وہاں کچھ نہیں ہے۔بار بار یہ عمل دہراتی ہے۔ پھر وہ خود ہی شرمندہ ہوتی ہے کہ یہ تو ای میل کی اطلاع ہے۔
ایک یہ ملاحظہ کریں۔
The first computer dates back to Adam and Eve. It was an apple with limited memory, just one byte. And then everything crashed.
اور یہ بھی۔
A clean house is the sign of a broken computer.
سب سے آخر میں ۔
Maybe if we start telling people the brain is an app, they will start using it.
یہ ذرا سمجھنا پڑے گا۔ Application of Mind جس کا ہمارے ملک میں رواج نہیں رہا ہے۔ ذہن کا استعمال اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ایک پارٹی کے سربراہ کو جب مختلف عہدوں کے لیے افراد کی فہرستیں جاتی ہیں تو وہ بعض لوگوں کے نام یہ کہہ کر کٹوادیتے ہیں۔ نہیں یہ نہیں۔ یہ اپنا ذہن استعمال کرتا ہے۔
کاش ہمارے رہنما اپنا ذہن استعمال کریں۔ اور اس عظیم ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں لے جائیں۔
بہت بہت شکریہ۔
آخر میں یہی درخواست ہے کہ ٹیکنالوجی سے متعلقہ ساری تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ تاکہ آپ ٹیکنالوجی کو استعمال کرسکیں۔ ٹیکنالوجی آپ کو استعمال نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اُردو 13ویں صدی سے 21ویں صدی تک جدید ٹیکنالوجی کا دور اور اُردو سے رشتہ” ایک تبصرہ