سیاحت اور ہوٹل کی صنعتیں کرونا کا سب سے بڑا شکار

تحریر: نوید اشتیاق
دسمبر 2019کے مہینے میں جب میں نے ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے کوریا کا سفر کیا۔ جب سیؤل ایئرپورٹ پہنچے تو ہمیں ایک الیکٹرانک مشین میں سے گزارا گیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ہر آنے والے شخص کاٹمپریچر چیک کیا جارہا ہے جو کسی وائرس کی وجہ سے ہے جو چائنا سے پھیل رہا ہے۔ اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ وائرس جس کا نام کرونا ہے بہت جلد ہماری زندگیوں میں بھی داخل ہونے والا ہے اور پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑلے گا اور دنیا کے تمام لوگوں کو اس سے محفوظ رہنے کے لیے سوائے لاک ڈاؤن کرنے کے کوئی اور راستہ نہ ہوگا آخر کار کرونا ہمارے ملک میں بھی پہنچ گیا اور ہم سب کو بھی لاک ڈاؤن ہونا پڑا۔
میری پروفیشنل زندگی کے 22سالوں میں پہلی بار تقریباً 30دنوں سے زائد کا لاک ڈاؤن ہوچکا۔ شروع کے دنوں میں تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ ہم اپنی اس لاک ڈاؤن والی زندگی کے دن رات کو کس طرح گزاریں اور کارآمد بناسکیں۔
اس لاک ڈاؤن کی زندگی نے سب سے پہلے تو اپنی زندگی کے سالوں سال گزرنے کا احساس دلایا کہ کس طرح زندگی سرکتی چلی گئی اور ہمیں اپنی روز مرہ مصروفیت میں دن رات کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں لگا کہ کس تیزی کے ساتھ وقت گزر گیا۔
ہم نے اپنے وقت کو کارآمد اور یادگار بنانے کے لیے ایک شیڈول بنایا اس طرح کہ اپنی کتابیں نکالیں جن کو ریک میں رکھ چھوڑا تھا اور روزانہ تقریباً 3گھنٹے کتاب بینی کرتا ہوں پھر ایک مخصوص وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں ان کے ساتھ گیم کھیلتا ہوں، ان کے ساتھ سائیکلنگ کرتا ہوں۔ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور ان کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں بچوں کے ساتھ گھنٹوں گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا جبکہ اپنی معمول کی زندگی میں بمشکل صبح و شام صرف چند لمحات کے لیے ملتا تھا۔ اسی طرح اب میں روزانہ کچھ وقت اپنے ان دوست احباب کو جن کو زندگی کی مصروفیت کے سبب تقریباً بھلا چکا تھا کال کرنا اور خیر خیریت دریافت کرنا اور کچھ وقت اپنے قریبی فیملی ممبرز کے ساتھ وقت گزارتا ہوں اور اب تو باقاعدگی کے ساتھ صبح اور شام چہل قدمی کرنا اور گھر کے کاموں میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانا حتیٰ کہ گھر کی سبزی ترکاری اور کھانے کا سامان بھی خود لے کر آتا ہوں۔ بہرحال اس لاک ڈاؤن کی زندگی نے بہت کچھ سکھادیا۔
پاکستان کی ہوٹل کی صنعت پر اثرات
کرونا نے جس طرح پوری دنیا کے لوگوں کی زندگیوں پر اثرات ڈالے اسی طرح پاکستان کی ہوٹل کی صنعت کے لیے انتہائی تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پروازیں بند ہونے کے سبب تمام ہوٹلوں کے کمرے خالی ہوگئے ہیں اور سماجی فاصلے کے سبب نہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہوسکتی ہے ہوٹل میں اور نہ ہی کوئی کانفرنس یا سیمینار ہوسکتا ہے۔ ہوٹل کے ریستوران بند ہیں۔ لاک ڈاؤن ہونے کے سبب اس وقت پاکستان کے تمام بڑے اور چھوٹے ہوٹل تقریباً بند ہوچکے۔ ہوٹلز کی انتظامیہ نے ورکرز بمعہ مینجمنٹ اسٹاف کو چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ لاک ڈاؤن ہونے کے سبب ہوٹل کی کوئی انکم نہیں ہوسکتی لہٰذا کچھ ہوٹلز نے ورکرز کو تنخواہ سمیت چھٹی اور کچھ ہوٹلز نے بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ جس سے اس صنعت سے منسلک لوگ انتہائی معاشی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اور کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین لاک ڈاؤن کے پہلے روز سے ہی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ان کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ہوٹل کا بزنس صفر ہونے کے سبب ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹل مکمل طور پر بند کردیے سوائے چند ایک برائے نام کھلے ہیں۔ چونکہ کسی بھی ہوٹل کا مقررہ خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہوٹل مالکان یقینا اس پوزیشن میں ہوں گے کہ وہ ہوٹلز کا مقررہ خرچہ برداشت کرسکیں لہٰذا انہوں نے ورکرز کو گھر بھیج کر ہوٹلز کو بند کردیا۔ گورنمنٹ کو چاہئے کہ پاکستان کی ہوٹل کی صنعت اور اس میں کام کرنے والے تمام ملازمین کے لیے امدادی پیکج نکالے جس طرح دوسری صنعتوں کے لیے نکالے ہیں۔ پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری ویسے بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں انتہائی چھوٹی ہے۔ ہمارے پورے ملک میں جتنے چار اور پانچ ستارہ ہوٹل ہیں اس سے کہیں زیادہ کسی بھی ملک کے صرف ایک شہر میں ہوتے ہیں۔
پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری کے ایک بڑے ہوٹل کے مالکان نے اپنے ادارے کے تمام ملازمین کو اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ کسی ملازم کو نکالیں گے اور نہ ہی کسی ملازم کی تنخواہ میں کٹوتی کی جائے گی۔ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے جو دوسرے ہوٹل مالکان کے لیے بھی سبق ہے۔ آخر کار یہ مالکان سالوں سال سے اپنے ان ہی ورکرز کی بدولت کئی کئی ہوٹلز کے مالک بن چکے ہیں مگر اس برے وقت میں انہوں نے اپنے ورکرز کو گھروں پر بٹھا دیا وہ بھی بغیر کسی تنخواہ کے یا پھر برائے نام تنخواہ دی جارہی ہے۔
سفری کاروبار
کرونا کے اثرات پاکستان کی ٹریول انڈسٹری کے لیے بہت ہی ہولناک ہوئے ہیں اس وقت پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی اور بڑی ٹریول ایجنسیز کام کررہی ہیں جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بر سر روزگار تھے اور ہیں۔ ملک کے تمام ایئرپورٹس بند ہونے کے سبب تمام ایئر لائنز نے اپنے آپریشن بند کریے ہیں جسکی وجہ سے تمام ٹریول ایجنسیز بند ہوگئیں اور ان کے تمام ملازمین گھروں پر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ زیادہ تر جو چھوٹے ایجنٹس ہیں وہ تقریباً دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ اندازے کے مطابق صرف ایک ماہ کے عرصے میں سینکڑوں کی تعداد میں ٹریول ایجنسیز بند ہوچکی ہیں ان کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں، بجلی کے بل اور دفاتر کے کرائے دے سکیں لہٰذا ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے اور اگر کرونا کے اثرات اسی طرح برقرار رہے اور لاک ڈاؤن مزید طویل ہوگیا تو ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار لوگوں کا اضافہ ہوجائے گا۔ ٹریول ایجنسیز کے بند ہونے سے نہ صرف ان کے مالکان کا نقصان ہوگا بلکہ گورنمنٹ کو بھی اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا جو ٹیکسوں کی صورت میں ملتا تھا لہٰذا اس انڈسٹری کو بھی بچانے کے انتظامات کرنے ہوں گے تاکہ جیسے ہی ملک کے ایئرپورٹس کھلیں اور ایئر لائنز کی پروازیں شروع ہوں تو یہ ایجنٹ اپنا کام دوبارہ سے شروع کرسکیں۔ اس وقت سوائے چند ایک بڑے ٹریول ایجنسیز کے زیادہ تر ایجنسیز کے ملازمین گھروں پر بغیر کسی تنخواہ کے بیٹھے ہیں۔
انٹرنیشنل سیاحت صنعت
کرونا وائرس نے جس طرح پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہے اس نے انٹرنیشنل ٹورزم کو بالکل ختم کردیا ہے۔ پاکستان کی وہ ٹریول کمپنیاں جو انٹرنیشنل ٹورزم کے شعبے سے منسلک ہیں وہ سب کی سب تقریباً بند ہوچکی اور انہوں نے اپنے ورکرز کو گھروں پر بٹھادیا ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے کے بڑے بڑے ایئرپورٹس بند ہیں۔تمام بڑی اور چھوٹی ایئر لائنز کے آپریشن بند ہیں نہ کوئی کسی ملک جاسکتا ہے نہ ہی وہاں سے کسی اور جگہ سفر کرسکتا ہے۔ تقریباً تمام ممالک نے اپنے ویزا سیکشن کو بند کردیا ہے اور کوئی بھی نئی ویزا درخواست نہیں لی جارہی لہٰذا انٹرنیشنل ٹورزم میں کام کرنے والے تمام کے تمام ورکرز گھروں میں بٹھادیے گئے ہیں۔ ملک میں کام کرنے والی چھوٹی اور بڑی کمپنیز نے اپنے دفتروں کو بند کردیا۔ اس انڈسٹری میں کام کرنے والوں کا مستقبل تقریباً ختم ہوچکا جبکہ اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دے گا جب تک کرونا کا کوئی موثر علاج نکل آئے۔ خاص طور پر سماجی فاصلے کے سبب کوئی بھی ملک لوگوں کو گروپس کی صورت میں گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ لہٰذا اس انڈسٹری میں کام کرنے والے تمام ملازمین انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی زیادہ تر ایجنسیز نے ملازمین کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں اندرون ملک سفر تو شاید شروع ہوجائے مگر بین الاقوامی سفر کو شروع ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ جس کے سبب زیادہ تر بین الاقوامی سفر کا کام کرنے ولے ایجنٹس اپنے دفتر عارضی طور پر بند کردیں گے جس سے ان کمپنیز میں کام کرنے والے ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔ وہ تمام لوگ جو اپنی پروفیشنل زندگی کے سالوں سال ان اداروں کی ترقی اور کامیابی کے لیے وقف کر دیتے ہیں مگر کسی بھی بحران کی صورت میں ان کے روزگار کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی پالیسی نہیں۔ اگر چہ گورنمنٹ نے کارپوریٹ سیکٹر کے لیے انتہائی کم شرح پر قرضے کی سہولت دی ہے مگر افسوس ہمارے معاشرے کا روایتی سیٹھ اپنے اسٹاف کے روزگار کو محفوظ بنانے کے لیے اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

twelve − two =