رشوت کو قانونی درجہ میرٹ کو نا اہلی کا سر ٹیفکیٹ مل گیا

بچوں کی وطن سے دوری پر اُداس پروفیسر فرحت عظیم کی آنکھیں نم کرتی تحریر
دسمبر 2012ء کی آخری شب تھی جب میں اُسے امریکہ چھوڑ کر آئی تھی۔ پورا شہر جاگ رہا تھا۔ گلیوں کا شور گھر کے سناٹے کو اور بڑھا رہا تھا۔ صلاح سو گئے تھے ۔ بظاہر سو گئے تھے مگر میں جانتی تھی کہ گزرے دنوں سے آنے والی آوازیں انہیں سونے نہیں دے رہیں۔ ایسے سنبھل سنبھل کر کروٹیں لے رہے تھے جیسے بستر پر پاس ہی حماد سویا ہوا ہے ، وہ اٹھ نہ جائے۔ ابھی تک اُس کی یہ عادت تھی ہمارے پاس آکر سوجاتا تھا۔ بازغہ ، حماد، حفصہ کہتے آپ لوگوں نے اِسے مُنّا بنایا ہوا ہے۔ میں بظاہر حماد کو ڈانٹ دیتی چلو اپنے بیڈ پر جائو، مگر دل میں یہی چاہت ہوتی کہ وہ مُنّا سا بن کر میری گود میں بیٹھ جائے، کاش زندگی بس صرف ایک مرتبہ واپس وہاں لے جائے وہاں، جب بچے چھوٹے تھے۔ نہ جانے کتنی بے ترتیب یادوں میں باہر ٹہل رہی تھی مجھے خنکی سے محسوس ہوئی وہ شال یاد آگئی جو میں نے بچوں کے بے حد اصرار پر اوڑھنی چھوڑ دی تھی مگر ان کے کہنے کے مطابق کسی ماسی کو دینے کے بجائے اٹھا کر رکھ دی تھی۔ شال، خیال پر کیا چڑھی پیچھا چھڑانا وبال ہوگیا۔ میں زیر لب مسکرانے لگی ۔ صلاح نے شادی سے پہلے دی تھی مجھے یہ کشمیری شال۔ وہ مری گئے تھے وہاں سے لائے تھے ۔ غیر شعوری طور پر بس ایسا ساتھ ہوا اس کا اور میرا کہ یہ حماد تک میرا ساتھ نبھا گئی ۔ نہ جانے کیا بات تھی اس میں کہ میں نئی شال چھوڑ کر اسی کو اٹھالیتی تھی ۔ صلاح جب عراق اور سعودی عرب میں تھے، آج کی طرح فون پر باتیں کرنے کا زمانہ تو نہ تھا، میں اسی شال سے باتیں کرتی تھی، بچوں کو سردی سے بچانا ہوتا تو اسی میں لپیٹ کر مطمئن ہوجاتی تھی۔ رنگت خراب ہونے کی وجہ سے بچوں نے پہننے سے منع کیا تھا۔
تنہائی کا احساس حماد کے بھی چلے جانے سے زیادہ ہوا ہے۔ حفصہ اور بازغہ دور چلی گئی تھیں مگر وہ ہمارے پاس تھیں ۔ کھانا کھاتے وقت، ٹی وی دیکھتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے ، گھر میں کوئی آجائے تو ، ہم کسی نہ کسی طرح، کوئی نہ کوئی اُن کی بات نکال ہی لیتے تھے۔ بازغہ کو یہ ڈش پسند تھی ، حفصہ یہ پروگرام بڑے شوق سے دیکھتی تھی ۔ یہاں جانا ان دونوں کو بہت پسند تھا ۔ کبھی حماد اور عماد اُن دونوں کو تنگ کرنے کے قصے سنا کر خوب ہنستے، یقین کیجئے وہ دونوں بھی ہمارے ساتھ ہنستی تھیں۔ وہ اب یہ شکایت نہیں کرتی تھیں کہ دیکھیں امی، عماد نے میرے کمرے سے میرا پین لے لیا۔ حماد نے الماری سے میری ساری چاکلیٹس نکال لیں، اب تو عماد نے بہت سے قیمتی پین لا کر بازغہ اور حفصہ کی میزوں پر رکھ دئیے تھے ۔ حماد اُن کی پسند کی چیزیں لا کر ان کے کمرے میں الماری کی درازوں میں رکھ دیتا تھا کہ باجی اور حفصہ آکر دیکھیں گی تو خوش ہونگی۔ وقت آگے تو بڑھے گا نا! C.A کاآخری Module تھا جب عماد نے کہا ، میں جاب تلاش کررہا ہوں، میں نے کہا بیٹا پہلے اپنی پڑھائی مکمل کرلو کہنے لگا امی جاب کون سے آج ہی مل جائے گی اور واقعی سال لگ گیا اُس نے بتایا کہ اُس کو جاب مسقط میں ملی ہے۔ ہم نے احتجاج کیا۔ بیٹا یہیں دیکھو۔ بولا ایک سال سے یہی کررہا ہوں۔ یہاں نہیں ملی تو کیا کروں، کیا بے روزگار بیٹھا رہوں، اُس کے لہجے میں اپنے ملک کے لیے غصہ، نا انصافی اور بغاو ت کی جھلک دیکھ لی تھی میں نے۔ میں خاموش ہوگئی۔ مجھے اسی طرح احتجاجاً صلاح کا عراق جانا یاد آگیا۔ ایک نسل گزر گئی تھی مگر پاکستان میں کچھ نہیں بدلا تھا۔ فرق یہ ہوا تھا کہ اب نا انصافی نے بڑی مضبوط جگہ بنالی تھی ۔ رشوت کو قانونی درجہ مل گیا تھا۔ میرٹ کو نااہلی کا سرٹیفیکٹ دے دیا گیا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب مجھے وہ اپنے انداز سے بتا رہا تھا۔ میں نے عماد کو نہیں چھیڑا مجھے پتہ تھا کہ وہ اشرفیہ سے لڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے پہلے بہت سے ماں باپ سے سنا تھا کہ ہمارا بچہ مجبوراً باہر گیا ہے۔ اگر یہاں جاب مل جاتی تو کیوں جاتا، پھر ان ہی کو یہ کہتے بھی سنا کہ ماشاء اللہ وہاں کام کی بڑی قدر ہے۔ مطمئن سے ہوگئے تھے اب وہ اپنے بچوں کی دوری سے ۔ میں بھی تھم گئی، صلاح بھی چپ ہوگئے اُن کے پاس تو کوئی دلیل بھی نہ تھی اُسے روکنے کی۔ وہ بھی تو گئے تھے اسی طرح ۔ ویسے بھی رشتے تو فاصلوں میں بھی قربتوں کی طرح رہتے ہیں۔ ہجرت کا یہ سفر تو ازل سے جاری ہے تا زندگی رہے گا۔ حضرت انسان کو تلاش سے روکا نہیں جاسکتا۔ ہاں حالات کا جبر نہ ہو ۔ مسقط کون سا دور ہے، آج کل تو کراچی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا مشکل ہے مگر مسقط جانا آسان۔ امی نے بھی یہی کہا اور عماد کے دادا، دادی نے بھی ۔ کتنی جلدی انہوں کے وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو تسلیم کر لیا تھا ۔حالانکہ وہ تعلیم حاصل کرنے، دنیا دیکھنے اور گھومنے پھرنے کے حامی تھے۔ مگر اُس پیسے کے خلاف تھے جس کے عوض دوری ملے ۔ دنیا کی نزدیکی اورملکی حالات میں اُن کا یہ بیانیہ کمزور ہوچلا تھا ۔ وہ سمجھ گئے کہ نئی نسل کو قائل نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال اب تو ہماری تمام تر توجہہ کا مرکز حماد ہوگیا تھا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں اُس نے ایڈمیشن لے لیا۔ میں چاہتی تھی وہ بیچلر یہاں سے کر لے اور پھر ماسٹرز کے لیے امریکہ جائے۔ اس دوران اگر گرین کارڈ کے لیے کال آبھی جائے تو بس قانونی کاروائی کے بعد ہفتہ ، دس دن وہاں رہ کر واپس آجائے۔ سال تو یونہی گزر گیا اور عماد نے اپنے آنے کی اطلاع کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اب اُس کی جاب دبئی میں ہوگئی ہے ۔ بہت اچھی جاب ہے۔ تنخواہ، رہائش، فیملی کو رکھنے، سال میں دو دفعہ سب کے ہوائی جہاز کے ٹکٹ وغیرہ وغیرہ اس دفعہ تو میں نے بھی بڑی خوشی خوشی سُنا، صلاح بھی مطمئن تھے۔ ایک مہینے کے اندر جوائن کرنا تھا۔ عماد نے آتے ہی دل مو ہ لینے والی خوش کن فکر کا اظہار کیا ، کہنے لگا امی فیملی کے لحاظ سے تنخواہ ،مراعات اور دوسرے الائونسز بہت زیادہ ہیں۔ شادی کرلوں گا تو فائدہ ہوگا۔ میں اُس کی بچت پالیسی پر دل ہی دل میں ہنس دی۔ امی کو بتایا تو وہ بڑی زبردست حامی نکلیں عماد کی۔ کہنے لگیں بچہ برسر روزگار ہوجائے تو فوراً شادی کرو، دوسرے یہ کہ پردیس میں تو تنہا بالکل نہیں بھیجنا چاہیے ۔ بچی بھی گویا سامنے ہی تھی۔ ڈاکٹر تھی، سونیا نام اور حفصہ کی نند تھی ، چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا، اور دونوں دبئی روانہ ہوگئے۔ بڑا ہنگامہ اور شور رہا۔ بازغہ اور حفصہ بھی آگئی تھیں۔ سب ہی آگے پیچھے چلے گئے اور ہم پھر حماد کے ساتھ پرانی پورزیشن پر آگئے ۔ حماد کا کہنا تھا کہ دبئی سے تو لوگ ہر ویک اینڈ پر آتے ہیں۔ ہم بھی جلدی جلدی آئیں گے ۔ چھ ماہ بعد تو ویسے بھی انہیں جاب کی طرف سے ٹکٹ ملنا ہی تھا ، سو اُن دونوں کے آنے کی خبر نے ہمیں بھر پور متحرک کردیا ۔ آٹھ دن کے لیے آرہے تھے کمرے کی جھاڑ پونچھ، لائٹس، AC اور پنکھے کی درستگی کی۔ میں نے پہلے ہی سے کچھ کھانے بنا کر رکھے تاکہ اُن کے سامنے میں بہت زیادہ وقت کچن میں نہ گزاروں۔ دل میں سوچ لیا تھا کہ کالج سے بھی آٹھ دن کی چھٹی کروںگی ۔ ہم خوب انجوائے کریں گے بچوں کے ساتھ ۔ حماد بھی ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔ صبح 4 بجے کی فلائٹ تھی۔ رات آنکھوں ہی میں گزری۔ حماد نے ڈرائیونگ کی اورہم 4بجے سے پہلے ہی ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ مسرور تھے ہم آنے والے دنوں سے۔ عماد اور سونیا بھی بہت خوش تھے۔ ہم نے سامان گاڑی میں رکھا، عماد نے کہا، حماد لائو میں ڈرائیونگ کروں، حماد نے کہا نہیں بھائی رہنے دیں، میں چلائوں گا۔ حماد کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر صلاح تھے، میں عماد اور سونیا پیچھے والی سیٹ پر ، سامان، پرس، بریف کیس اور ایک ہینڈ کیری صلاح کے پاس بھی نیچے پائوں کے پاس رکھا ہوا تھا۔ وہ دونوں شادی کے بعد پہلی مرتبہ آرہے تھے شوق میں کافی سامان لے آئے تھے ۔نقد رقم ، زیورات سب ہی اچھی تعداد میں تھے۔ سب سے بڑھ کر دونوں کے تمام کاغذات ،پاسپورٹ ، ڈگریاں اور جاب کے لیپ ٹاپ۔ واپسی پر 5بجے کا وقت ہوگا، ہم عائشہ منزل کے قریب پہنچے تو حماد نے کہا۔ ابو مجھے لگ رہا ہے ایک گاڑی ہمارا پیچھا کررہی ہے ۔ ہم سب ہی نے پیچھے دیکھا، واقعی ایک گاڑی آرہی تھی، عماد نے کہا، حماد گاڑی تیز چلائو لیکن طاہر ولا کو کراس کرنے کے بعد وہ گاڑی غائب ہوگئی۔ ہم نے سوچا کہ وہم تھا ہمارا، وہ گاڑی ہمارے تعاقب میں نہیں تھی۔ اطمینان سے ہوئے ہی تھے کہ اُسی گاڑی نے رانگ سائیڈ سے آکر گاڑی سامنے کھڑی کی، بجلی کی سی تیزی سے چار نوجوان لڑ کے پستول تھامے چاروں طرف کھڑے ہوگئے ۔ حماد نے سامنے یہ پوزیشن دیکھ کر گاڑی ریورس کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ پیچھے بریکر ہونے کی وجہ سے لمحوں کی تاخیر ہوئی ، اُ ن میں سے ایک نے ہوا کی طرح آکر حماد کے سر پر پستول رکھ دیا، بولا بہت چالاک بنتا ہے، بنادوں تیرے دماغ کو بھُس، یہ کہہ کر ٹریگر کو دبانے لگا۔ اس سے پہلے کہ حماد کو جوش آتا ،میں نے پیچھے سے اچک کر اُس کے سر اور منہ پر اپنے ہاتھ رکھے اور پستول تھامے نوجوان سے کہا بیٹا ہم رکے ہوئے ہیں۔ ان ہی لمحوں میں دوسری طرف بھی اُس کے ساتھی پہنچ چکے تھے ۔ سامان نکالنا شروع کیا ۔ ڈکی سے ، پرس، بریف کیس، ہینڈ کیری بس چند منٹوں کا سین تھا یہ ۔ اسی دوران حماد کے سر پر پستول لے کر کھڑے ہونے والے نے حماد کو نہایت غور سے دیکھا ، عین اسی ساعت ان کی گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور آجا کی آواز پر وہ بھاگ گیا۔ کچھ لمحے تو گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھنے میں قیامت سے گزر گئے پھر انتہائی حیرانی سے حماد نے کہا، امی یہ لڑکا مجھے بہت دیکھا ہوا لگ رہا تھا جیسے میری کلاس کاہو، یہ بہت کم آتا ہے شاید وہی ہے ، وہ بھی مجھے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا، شاید پہچان گیا تھا۔ اس بات نے تو ہم سب کے دل دہلا دئیے۔ خوف اور دہشت اوڑھے گھر پہنچے تو ہزار فکریں بھی ساتھ تھیں۔ سامان اور مال تو گیا، سوگیا۔ قیمتی کاغذات تو پوری زندگی کا اثاثہ تھے۔ جاب کا لیپ ٹاپ اُس سے بھی قیمتی تھا اور پھر حماد کا پہچان میں آجانے کا خدشہ ۔ اس نے تو لمحہ بھر کے چین کو چھین لیا۔ بازغہ ، عماد اورحفصہ نے طوفان کھڑا کردیا ان کا کہنا تھا کہ اب حماد کا یہاں رہنا خطرناک ہے۔ حماد اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں تھا ۔ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ لڑکا تو بہت اچھا ہے؟ معصوم ہے؟ شاید امی اسے دوسرے لڑکے زبردستی لائے ہیں؟ اُس سے کہا ہوگا چلو، ہمارا ساتھ دو، ورنہ ہم تمہیں مار دیں گے۔ بولا، امی آپ نے دیکھا تھا اُس کی آنکھوں میں بے چارگی تھی۔ حماد بے چین تھا۔ اُس لڑکے کا مقدمہ اس طرح میرے سامنے بیان کررہا تھا کہ میرے اندر بھی ہمدردی پیدا ہوگئی ۔میں سیاسی، معاشی اور سماجی پس منظر میں اُسے دیکھنے لگی۔ دل دکھنے لگا کہ کیسے جوان بچے تھے ، بگڑرہے ہیں، ہوسکتا ہے دوسرے بھی کسی تعلیمی ادارہ سے منسلک ہوں ۔ ماں باپ نے کیا خواب دیکھے ہونگے ان کے لیے ، کون ذمہ دار ہے انہیں اس نہج پر پہنچانے کا، مجھے ہر بچے میں حماد نظرآنے لگا، لیکن میں اُسے یہاں نہیں روک سکتی تھی ۔ بچے کہہ رہے تھے اور خود میرا بھی یہی حال تھا کہ اب جب تک وہ یہاں سے باہر نہ چلا جائے ہمیں سکون نہیں آئے گا۔ گھر میں تو ہم نے اُسے بند کرہی دیا تھا۔ واقعہ والی گاڑی کو بھی گھر میں کھڑا کردیا تھا۔ ہم سب اب انتظار میں تھے کہ جلدی سے گرین کارڈ کی کال آجائے ۔ عماد کی چھٹیاں اپنے کاغذات اور جاب کے تمام ڈیٹا کو ریکور کرنے میں اور سونیا کی پریشانی میں چلی گئیں۔ دوبارہ آنے سے وہ دونوں گھبرا رہے تھے۔ مجھے بار بار تنبیہہ کر کے کہا تھا، حماد کو بالکل گھر سے نکلنے نہیں دیجئے گا، جرائم پیشہ لڑکوں کو شبہ بھی ہوجائے کہ کسی نے شناخت کرلیا ہے تو اُسے مار دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ کٹھن دن گزر رہے تھے کہ USA امیگریشن کا موٹا سا لفافہ ڈاک کے ذریعے آیا تو جیسے آسانیاں ہاتھ آگئیں۔ سارا کام جلد سے جلد کیا، انٹرویو کے بعد بس اتنا ہی انتظار کیا کہ ویزا لگ کے پاسپورٹ ہاتھ میں آیا۔ میں ساتھ لے کر جارہی تھی ہزاروں میل دور چھوڑ کر آنے کے لیے۔ حماد بھی بہت خوش تھا۔قہقہے لگا رہا تھا بات بات پر ۔ صاف لگ رہا تھا اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ گھر سے نکلتے وقت بازغہ، حفصہ اور عماد کے کمروں میں جھانکا، جیسے اندر وہ بیٹھے ہیں اور انہیں خدا حافظ کہہ رہا ہے، پھر ہمارے کمرے میں چلا گیا۔ ہمیں یہ تاثر دے رہا تھا جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہے، بستر پر بیٹھا پھر کھڑے ہو کر چاروں طرف تلاش کرنے والی نگاہ سے دیکھا اور باہر آگیا۔ گاڑی نے جب تک موڑ کاٹا، وہ بہانے بہانے سے گھر کو دیکھتا رہا۔ میں آٹھ دن اُس کے ساتھ بازغہ کے ہاں رہی ، پھر اُس نے اپنے کالج کے قریب ہی کمرہ لے لیا، اور میں واپس پاکستان آگئی۔ اپنے آ پ کو بہت سی دلیلوں سے سمجھاتی آئی تھی کہ اُس کا جانا ضرور ی تھا ۔ صلاح مجھے ائیر پورٹ پر لینے آئے تو آنکھیں اور لب بالکل ساکت تھے گویا حرکت ہوئی تو رو پڑیں گے۔ میں بھی ضبط کرتی ہی آئی تھی۔ دونوں بہت ہمت والے بننے کی کوشش کرتے رہے ۔ شام رات میں ڈھل رہی تھی۔ ہم نے گھر آکر لائٹس جلائیں ۔ صلاح نے پلائو بنائی تھی۔ سعودی عرب میں اکیلے رہنے سے انہیں چند چیزیں تو بہت اچھی بنانی آگئی تھیں۔ اپنے لحاظ سے انہوں نے تنہائی کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ اداسی کے ماحول کو نارمل بنانے کے لیے مجھ سے کہنے لگے، فرحت ،تم جلدی سے فریش ہوجائو، میں کھانا لگاتا ہوں۔ ہم کھانا کھانے بیٹھے تو سارے بند ٹوٹ گئے، بولے فرحت ،حماد کھانا کیسے کھاتا ہے، میں نے کہا، میں اُسے کچھ چیزیں کافی سمجھا کر آئی ہوں، کہنے لگے وہ تو کچن میں جاتا بھی نہیں تھا۔ پکانا تو دور کی بات ہے وہ تو ڈش میں سے اپنی پلیٹ میں بھی تم سے نکلواتا تھا، اب خود پکائے گا؟ بس پھر ایسا لگا کہ پلائو کی پلیٹیں پانی میں اوپر ، نیچے تیر رہی ہیں۔ میں رات بھر سوچتی رہی ، اُن دوریوں میں ہمارا قصورہے یا حالات کا۔ یہ ضروری تھا ہماری محبتوں میں یا ہم نے خود سے اپنے اوپر تھوپ لیاہے۔ میں خود ہی سوال کرتی تھی ۔ خود ہی جواب دے رہی تھی اور اپنے آپ کو مطمئن کر لیتی تھی۔ صبح سوتے ہوئے مجھے لگا میرے ہی دل پر نہیں گزری یہ تو اب پاکستان میں ہر گھر کی کہانی ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بھی تو بن چکی ہے، میں نے اپنے دل کو تسلی دی اور کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ صلاح اپنی سائٹ پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ لگ جارہا تھا جیسے دونوں کسی نئی صبح کے ساتھ زیست کا بقیہ سفر طے کرنے جارہے ہیں۔ عجب مٹی سے گندھے ہیں ہمارے ہاں کے رشتے ،بیٹے ، بیٹیاں کتنے ہی بڑے ہوجائیں، شادی شدہ ہوجائیں، ماں باپ اپنی جان اور مال عمر کے ہر حصے میں ان پر نچھاور کرنا اپنا فرض سمجھتے رہتے ہیں ۔ کیا محبتوں کے سلسلے ہیں کہ بچوں کے بچوں کے لیے بھی جاں نثاری کا یہ عمل جاری رہتا ہے۔ اولاد بھی والدین کو بزرگی میں پاتے ہیں تو اُن سے مشاورت و معاونت کے ذریعے انہیں زندگی کا جواز اور اہمیت کا احساس دیتے رہتے ہیں۔ مغرب اور امریکہ میں 18 سال کے بعد بچے اپنی زندگی گزارنے نکل جاتے ہیں۔ اسے وہ آزادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ماں باپ کو حق نہیں کہ وہ انہیں کسی بات سے روکیں ، ٹوکیں یا مشورہ دیں۔ یہ خلاف آئین بھی ہے۔ دوسری طرف ماں باپ کا بھی یہی حال ہے۔ وہ بھی 18 سال کے بعد اولاد کے لیے کسی قسم کا فرض، کوئی ذمہ داری لینا نہیں چاہتے۔ ان کی بھی آزادی یہی ہے کہ وہ 18 سال کے بعد اپنی اولاد کے بوجھ یا اُن کے حوالے سے کوئی ٹینشن نہ لیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان سے جانے والے بھی اسی رنگ میں رنگتے جارہے ہیں۔ تقریباً دو نسلیں تو گزر چکی ہیں اکثر پاکستانیوں کی امریکہ میں رہتے ہوئے۔ وہ اپنی اخلاقیات اور روایات بلکہ فرائض سے باغی نظر آتے ہیں۔ سنی سنائی نہیں میں خود عینی شاید ہوں ایک واقعہ کی۔ شکاگو کے قریبی suburb میں ہم کچھ دنوں رہے ۔ Elgin نام تھا علاقہ کا۔ ہم یہاں واقع ایک مسجد میں پابندی سے جاتے تھے۔ رمضان تھے۔ بڑا جوش و خروش تھا۔ روزانہ کسی نہ کسی کی جانب سے افطار، کھانا ہوتا، پھر تراویح ہوتی تھیں۔ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ان ہی دنوں ایک نئی خاتون آئیں۔ سب ہی نے دعا سلام کی۔ یہ معلوم ہونے پر کہ وہ کراچی سے ہیں میرا تعلق کچھ زیادہ ہوگیا۔ اُن کے شوہر بھی ساتھ آتے تھے۔ خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ عید کرنے یہاں آئے ہیں۔ ایک ہی بیٹا ہے۔ وہ یہاں تھا ہم وہاں تنہا تھے ۔اُس نے Visit ویزہ پر ہمیں بلایا ہے ۔ ابتدائی دنوں میں تو وہ بہت خوش تھیں، مگر جلد ہی کچھ بجھ سی گئیں ۔ چپ چاپ ، شدید کرب کی سی کیفیت۔ خوفزدہ، میں نے موقع پا کر خیریت دریافت کی تو آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ نکلے، کہنے لگیں ہم کل پاکستان جارہے ہیں۔ میں نے گھبرا کر پوچھا آپ تو عید کرنے آئی تھیں۔ بولیں ہاں مگر ہماری بہو ہمیں رکھنے پر تیار نہیں، وہ میرے بیٹے سے کہہ رہی ہے کہ ان کے رہنے کا علیحدہ بندوبست کرو۔ میں نے کہا اگر ایسا تھا تو آپ کے بیٹے نے آپ کو بلایا کیوں؟ جواب میں کہنے لگیں ۔ ہم نے بھی اپنے بیٹے سے یہی سوال کیا، اُس نے جواب دیا کہ اماں، میں نے سوچا کچھ دن کی تو بات ہے گزارہ ہو ہی جائے گا، مگر اب میں بھی مجبور ہوں ۔ علیحدہ آپ کو رکھ نہیں سکتا، لہذا آپ واپس کراچی چلے جائیں۔ میں نے انتہائی تکلیف اور حیرانی سے پوچھا کہ آپ کی بہو کا تعلق کیا امریکہ ہی سے ہے ۔ جواب نے دل ہی دہلا دیا کہ ان کی بہو ان کی سگی بھانجی تھی۔ بتارہی تھیں کہ وہ میرے بیٹے سے کہہ رہی ہے کہ میں مذہب کے لحاظ سے بھی پابند نہیں ہوں آپ کے والدین کی خدمت کے لیے ۔ ہمارا دن گزارنا اور رات سونا دوبھر ہورہا تھا، سو ہم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ واپسی کاٹکٹ کروادے، اُس نے کل ہی کا کروادیا۔ ان ہی خیالات و خدشات میں گھری تھی ، نہ جانے کب کالج آگیا، پتہ ہی نہیں چلا۔
پتہ تو مجھے کالج میں داخل ہوتے ہی ہوگیا تھا کہ سین کچھ بدلا ہوا ہے۔ وزارت تعلیم سے کچھ سرکاری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اتنے صبح کون آیا ہے؟ کیوں آیا ہے؟ کالج کی تاریخ میں صبح 8 بجے آج تک کوئی سرکار کی طرف سے نہیں آیا۔ اتنی زبردست تبدیلی آئی ہے تو یقینا اس کے پیچھے کوئی کہانی ہے ۔ شعبہ تعلیم کی اتنی اچھی پرفارمنس ، دل ماننے کو تیارہی نہ تھا۔ پرنسپل کے آفس جا کر پتہ چلا، ڈپارٹمٹ سے ایک بڑی افسر صاحبہ انسپکیشن کے لیے آئی ہیں۔ پرنسپل سے ہمارے ڈسپلن کی تعریف کررہی تھیں، حاضری کو سراہ رہی تھیں، تمام اساتذہ کا وقت مقررہ پر آنا انہیں حیران کررہا تھا۔ گیٹ سے لے کر نظم کے ساتھ قطار بنا کر طالبات کا اسمبلی میں آنا ، ان کے لیے ناقابل یقین منظر تھا۔ پھر کالج شروع ہوا، پہلے پیریڈ میں وہ پرنسپل کے ساتھ معائنہ کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ مسلسل تحسین لبوں پر تھی۔ میڈم بھی خوش کہ کسی نے تو ہماری محنت کو آکر دیکھا اور قبول کیا ۔ افسر صاحبہ کہنے لگیں اگر تمام کالجز آپ کی طرح ہوجائیں تو ہمارا ملک تعلیم یافتہ بن جائے گا۔ خلاف توقع اتنی تعریف ہمیں ہضم نہیں ہورہی تھی ۔ اب ٹیچرز کے بارے میں معلوم کرنے لگیں پھر پوچھا آپ کے ہاں پولیٹیکل سائنس کے اساتذہ کتنے ہیں (میں نے ازراہ احتیاط مضمون کا نام بدلا ہے) بتایا گیا، ایک ہی ہیں کیسا پڑھاتی ہیں؟ میڈم نے اُس کی تعریف کر کے اپنا فرض بھی ادا کیا۔ اُن لیکچرر کو بلوایا اور بولیں۔ ہم نے آپ کی بہت تعریف سنی ہے ۔ آپ ہمارے لیے قابل فخر اور قابل قدر ہیں۔ ایک بچی کو پڑھوانا ہے آپ سے ریکوئسٹ ہے وہ اتنی بڑی افسر کی گزارش سے شرمندہ اور مرعوب ہوگئی، بولی میڈم یہ تو میرے لیے خوشی کی بات ہوگی۔ میڈم افسر ایک دم سے کھڑی ہوگئیں، کہنے لگیں آئیے میں آپ کو آج ہی بچی سے ملوا دیتی ہوں۔ واپس بھی اپنی گاڑی سے کالج بھیج دوں گا آپ کو۔ اتنی مراعات یافتہ ہونے کا تو ہماری لیکچرر نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ہم بھی اُن کی منکسر المزاجی پر قربان ہورہے تھے۔ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ہماری قابل قدر اور قابل فخر استاد پیدل، گیٹ سے گھبرائی ہوئی تیز تیز چلتی ہوئی داخل ہوئیں۔ پرنسپل آفس میں آکر اور انہیں لے جانے کی وجہ بتا کر سب کو جوش اور پھر ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کردیا۔ ہوا یوں کہ جس بچی کو پڑھانے کے لیے کہا تھا وہ پبلک سروس کمیشن کے امتحانی سینٹر میں تحریری امتحان دے رہی تھی۔ محترمہ افسر نے ہماری لیکچرر کو سینٹر میں بہ حیثیت نگراں اندر بھیجا، طالبہ کی نشاندہی کی، فرمایا اُس بچی کی پرچہ حل کرنے میں مدد کرنی ہے۔ یہ گریڈ 17 ، لیکچرر شپ کا امتحان تھا متعلقہ مضمون کا۔ ہماری ساتھی بتا رہی تھی کہ وہاں میڈم افسر کا لہجہ بہت حاکمانہ تھا۔ طالبہ کو تو کچھ لکھنا بھی نہیں آتا تھا۔ میں نے چند جواب بتانے کی کوشش کی تو وہ لکھ بھی نہیں پارہی تھی، بالکل انجان چہرے ، خالی ذہن اور اجنبی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی گویا کہہ رہی ہو کہ آپ لکھ دیجئے۔ میں نے فوراً وہاں سے بھاگنے کی ٹھانی۔ دروازہ پر میڈم کھڑی تھیں، انہوں نے روکنے اور بات کرنے کی کوشش کی تو میں نے ان کی طرف دیکھا ہی نہیں اور جواب دئیے بغیر آگئی۔ اب اُسے اس بات کی فکر تھی کہ اُس کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے ۔ ہم جو چند اساتذہ آفس میں موجود تھے ، پہلے تو افسر سے بھی اوپر والے افسران سے شکایت کرنے کی ٹھانی ، دل چاہا کہ معائنہ کے نام پر صبح صبح آکر اظہار یکجہتی کرنا، اپنے آپ کو فرض شناس بن کر دکھانا اور ذمہ دار افسر کے روپ دھارنے والے اس چہرے کو بے نقاب کردیا جائے، لیکن دوسرے ہی لمحے ہم جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ۔ بھلا ہمارا ساتھ کون دے گا؟ ہم نہ کسی کو محکمہ سے نکلواسکتے ہیں نہ سزا دلواسکتے ہیں ۔ محکمہ کی صفوں میں تو اتحاد پایا جاتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے محافظ اور ساتھی ہیں۔ ایسا نہ ہو شکایت کرنے پر ہماری لیکچرر نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ وہ پورے خاندان کی تنہا کفیل تھی۔ چھٹی کا وقت قریب تھا کہ ایک مرتبہ پھر گیٹ کھلا اور وہی سرکاری گاڑی داخل ہوئی۔ پرنسپل صاحبہ نے کیمرے میں گاڑی پہچان کر فوراً مجھے اور چند سینئرزکو آفس بلوالیا۔ وہ خوفزدہ تھیں کہ یقینا وہ حکم عدولی کا مزا چکھانے آئی ہیں۔ لیکن وہ پھر اُسی مسکراہٹ کے ساتھ آفس میں داخل ہوئیں، جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں ، بولیں میں شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ذرا اُس ٹیچر کو بلا دیجئے، کچھ معاملہ کو سمجھتے ہوئے میرے منہ سے قدرتی طور پر سانس کی طرح جملہ باہر آیا، وہ تو ابھی بھی کالج سے نکلی ہیں ۔ ہم سب نے اپنے رویہ سے بالکل ظاہر نہیں ہونے دیا کہ ہمیں کچھ پتہ ہے ۔ پرنسپل نے بھی صبح ہی کی طرح آئو بھگت کی وہ مطمئن ہوگئیں ۔ اس کے بعد دس سال ہوگئے ہیں وہ نہ انسپکشن کے لیے آئیں نہ کسی کو ساتھ لے جانے کے لیے ۔ یہ الگ بات ہے یہ نام اور کام بدلتے رہتے ہیں۔
آج CAMS کی ٹیپو سلطان برانچ گئی تھی۔ کس نے کہا کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں لوٹتا؟ کون میرے اس دعویٰ سے انکار کرے گا کہ بچپن ، نوجوانی، جوانی بظاہر چلے جاتے ہیں لیکن یادوں میں ہمیشہ اُسی طرح اُسی حال میں اور اُسی دور میں زندہ رہتے ہیں۔ موقع ملنے پر جھپاک سے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ آج یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا! میں نے اپنے آپ کو کالج کی ایک لڑکی کے، ایک طالبہ کے روپ میں ڈھلتے محسوس کیا!۔ ہوا یوں کہ گیٹ سے داخل ہی ہوئی تو میرے سامنے میری وہ استاد کھڑی تھیں جو آج سے 42 سال قبل سر سید کالج میں ہمارے اولین اساتذہ میں سے ایک تھیں۔ مسز شکیلہ افضال ! میں نے حیرت سے کہا مسز افضل ، اور انہوں نے فرحت! کہتے ہی گلے لگا لیا۔ کیا عظمت تھی اُس دور کے اساتذہ کی برسوں بعد مجھے نام سے پکار کر میرے دل کو جنت بنا دیا۔ آج تو نہ استاد کو نام یاد ہیں نہ اسٹوڈنٹس کو اپنے اساتذہ کے ناموں سے کوئی دلچسپی ہے۔ مسز افضل نے ہمیں فرسٹ ائر میں بھی پڑھایا اور اُس کے بعد بھی ۔ اُردو کی عظیم استاد ہیں۔ ہم نے پروین شاکر کو بھی نہایت ادب و احترام سے ملتے دیکھا تھا ان سے ۔ یہ کالج کی طالبہ بھی تھیں۔ پہلے بیچ میں شامل تھیں ۔ بہترین مقررہ ، فاطمہ جناح کے ہاتھوں مباحثہ کی ٹرافی لینے کا اعزاز حاصل ہے۔ ٹیپو سلطان برانچ نے اس خزانہ کو نہایت حفاظت سے رکھا ہوا ہے۔ فاطمہ جناح سے ٹرافی لینے کا اعزاز صرف سر سید کالج ہی کو ٹیم حاصل ہے۔ ٹیم میں مسز افضل اور مسز احمد شامل تھیں۔ مسز احمد بھی اپنے وقت کی بہترین مقررہ تھیں دونوں ماشاء اللہ حیات ہیں ۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ یہ دونوں محترم ہستیاں میری استاد ہیں۔ میں نے ان سے تقریر کرنا بھی سیکھی اور تدریس کے اسباق بھی ۔(اللہ انہیں سلامت رکھے) ( جاری ہے) ز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

one × 4 =